Monday, 26 January 2015

خود کو پہچاننا، اپنے وجود کا ادراک ہونا ، اپنے مقام ، اپنی صلاحیتوں سے آگاہ ہوکر اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا خود شناسی ہے ، خودی ہے ۔۔۔
خود شناسی بمنزلہء خدا شناسی
جب اپنی صلاحیتوں کا کامل ادراک ہوجاتا ہے تبھی خدائے واحد پہ کامل یقین بنتا ہے ۔۔حديث نبوي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ہے کہ
مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه.
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان ليا- اس نے اپنے رب کو پہچان ليا‘‘-
اپنے وجود کا احساس خودی ہے ، اپنے معبود کا سپاس خودی ہے۔۔
وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
خودی ہی کائنات کا انتظام ہے ، خودی ہی ذات کا استحکام ہے بلکہ خودی ذات ہے ، خودی کائنات ہے ۔۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
خودی حیات کی تصدیق ہے خودی ذات کی تخلیق ہے ۔
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی فقیری میں شاہی لاتی ہے ، امیری میں آگاہی لاتی ہے ، اسیری میں شہنشاہی لاتی ہے ۔۔۔
بے ذوق نمود زندگی موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی
اور آج ہم اپنی خودی کی بازیافت سے غافل ہیں ۔۔اپنے وجود کی نفی پہ مائل ہیں حالانکہ ۔۔۔۔
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے۔۔
ذات تو فنا ہونے کے لیے ہے لیکن جو ذات صفات کا مرقع بن جاتی ہے ، وہ فنا پہ غآلب آجاتی ہے اور اپنی حیثیت ، اپنی اہمیت ، اپنے اصل سے رجوع کرنا ہی صفتِ ذات ہیں
ہو اگر خود نگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
خودی سوال نہیں کرتی ،خودی غلام نہیں ہوتی ،خودی تقلید نہیں کرتی ۔۔
خودی کے زور سے دنیا پہ چھاجا
مقامِ رنــــگـــــــــــــ و بو کا راز پاجا
خودی عشق سے زندہ ، علم سے تابندہ ، عمل سے پائندہ ہوجاتی ہے ۔۔۔
خودی کی فطرت میں عشق ہے اور فقر عشق میں کمال لاتا ہے۔۔
حکیمی نامسلمانی خودی کی
کلیمی ، رمزِ پنہانی خودی کی
تجھے گر فقر و شاہی کا بتادوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
خودی تقدیر کی تسخیر کرنا جانتی ہے ، خودی تدبیر کی تعمیر کرنا جانتی ہے ۔۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

No comments:

Post a Comment