Wednesday, 21 January 2015

موءرخہ 20 جنوری 2015
میں اپنی بے بسی پہ کھلکھلانا چاہتی ہوں
ہوائے تند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں
میں جھوٹی اور بے معنی تسلی کے مقابل
کوئی دکھ ہو کوئی غم مسکرانا چاہتی ہوں
تمنا اس قدر محوِ تمنا ہوگئی ہے
تمنا کے سحر میں ڈوب جانا چاہتی ہوں
کروں کیا دل کا آخر کوئی سمجھا دے کبھی تو
فقط دل کا قرار و چین پانا چاہتی ہوں
بنتِ طاہرہ طاہرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وقت و حآلات ، واقعات و صدمات، حآدثات و آفات کو جنم دینے لگتے ہیں ۔۔۔
دل ، دل نہیں قبرستان بن جاتا ہے ،
جہاں ہر دن ایک نئی تمنا ، خواہش کو کفنانا ، دفنانا پڑتا ہے ، دل حسرتوں کے شمار میں گرفتار ہوجاتا ہے ، حیرتوں کے اسرار سے بے زار ہوجاتا ہے ۔۔۔
وہ دل غموں کے بوجھ سے ڈوبنے لگتا ہے ، آنکھیں دل کی ایسی لاچاری پہ گہر لٹانے لگتی ہیں ۔۔۔
تب ایک نئی کیفیت کا جنم ہوتا ہے ، دل خود سے انتقام لینے لگتا ہے ، حسرتوں کے مقابل تن جاتا ، خود آزاری کی کیفیت عود کر آتی ہے۔۔
تب آنکھیں جو دل کا آئینہ ہوتی ہیں ، دل کی اس سرگرمی میں اپنا حصہ ڈآلنا نہیں بھولتی ۔۔۔
اپنے ارد گرد وہی کچھ دیکھتی ہیں جو دل دکھاتا ہے ۔۔۔دل جو آنکھوں کا سودائی بن جاتا ہے ، آنکھیں جو دل کے لیے رسوائی خرید لاتی ہیں ۔۔
لیکن یہ زندگی ہے ، زندگی جو آس پہ جی جاتی ہے ، امید پہ بُنی جاتی ہے ، خواہشوں سے لی جاتی ہے ، خوابوں پہ گنی جاتی اور تمناؤں سے سُنی جاتی ہے ۔۔۔
جب ایک خواب مرتا ہے ،تو بندہ خود سے لڑتا ہے ۔۔۔۔۔
جب ایک امید خآک ہوتی ہے ، تو بندہ خود سے ڈرتا ہے ۔۔۔۔
جب ایک تمنا چاک ہوتی ہے تو بندہ خود پہ بگڑتا ہے
لیکن اس لڑنے ، ڈرنے، بگڑنے سے زندگی پھر سے جڑ پکڑلیتی ہے ، پھر سے نمو پانے لگتی ہے ۔۔۔
لیکن پھر بھی اے زندگی میں تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہاری ۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment