Tuesday, 27 January 2015


خدایا کس قدر اہل نظر نے خاک چھانی ہے
کہ ہیں صد رخنہ جوں غربال دیواریں گلستاں کی

Khudaya kis qader ehl e nazer ny khak chani hai
k hain sd rakhna jo'n ghurbal deewarain gulista'n ki

غربال، چھلنی ۔۔۔۔۔
اگر گلستاں مراد دنیا ۔۔۔۔اہلِ نظر جو حقائق کی دریافتگی میں مصروفِ عمل ہیں ۔۔
غآلب ان کی کاوشِ نظری کو خراجِ تحسین بخشتے ہیں ۔۔۔
اہلِ نظر جو کوہ و دامان و صھرا کی خآک چھانتے پھرتے ہین۔۔۔جن میں تجسس کا مادہ بدرجہء انتہا پایا جاتا ہے ۔۔۔
زرے زرے کو چھلنی سے چھانتے ہیں ، زرہ زرہ چھلنی کر ڈالتے ہیں ۔۔۔

Ghurbal , chalni ...
ager gulista'n murad dunya , ehl e nazer jo haqa'iq ki daryaftigi mai masrof e amal hain ...
Ghalib un ki kavish e nazri ko khiraj e teseen bakhshtay hain

Monday, 26 January 2015


بزمِ کثرت عالمِ وحدت ہے بینا کے لیے
بے نیازِ عشق اسیرِ زورِ تنہائی نہ ہو
bazm e kasrat aalam e wehdat hai beena k liye
by niyaz e ishq aseer e zor e tanhai na ho

عشق ماسوا سے بے نیاز بنادیتا ہے ، عشق کی جلووں کی اس قدر گرانی ہوتی ہے کہ عاشق انہی میں مست رہتا ہے بے خود ہوجاتا ہے ۔۔۔
عاشق اپنے عشق کے زور سے اپنی دنیا آپ بنا لیتا ہے ۔۔
عاشق کو محبوب کے تصور میں غرق رہنے کے لیے تنہائی درکار نہیں ہوتی ، اسکی نگاہ کندن ہوجاتی ہے جو اسے ہر ہر شے میں محبوب جلوہ نما نظر آنے لگتا ہے ۔۔۔
ishq ma siwa sy by niyaz bna deta hai , ishq k jalwon ki is qader girani hoti hai k aashiq inhi mai mast rehta hai by khud ho jata hai  ...
aashiq apny ishq k zor sy apni dunya aap bna leta hai ...
aashiq ko mehboob k tasawur mai gharq rehnay k liye tanhai drkar nhi hoti , os ki nigah kundan ho jati hai jo osay hr hr shay mai mehboob jalwa numa nazer aany lgta hai ...
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
ishq ki aik jast ny tay kr diya qis'sa tamam
is zameen o aasma'n ko by karan smjha tha main

سورہ اسری کا مفہومی ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔

وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔۔

واقعہء معراج کیا تھا ، عشق کی معراج تھا ۔۔۔زمیں سے آسماں ، آسماں سے زمین کا سفر رات ہی رات میں طے ہوگیا ۔۔عشق نے فاصلوں کو سمیٹ دیا ۔۔یہ عشق کا معجزہ ۔۔۔
sorah e Asra ka mafhomi tarjuma kuch yon hai k ....wo zat pak hai jo aik rat apny bnday ko masjid ul haram yani khana e ka'aba sy masjid e Aqsa yani bait ul muqad'das tk jis k girda gird hum ny barkatain rakhi hain ly gaya ta k hum osay apni qudrat ki nishaniyan dikhayen by shak wo sun'nay wala aur dekhnay wala hai

waqiya e mairaj kya tha ishq ki mairaj tha zameen sy aasman , aasman sy zameen tk ka safer rat hi rat mai tay ho gaya ishq ny faslon ko samait diya ye ishq ka moujza ....

مولانا رومی رح فرماتے ہیں ۔۔۔
وجودِ آدمی از عشق می رَسَد بہ کمال
آدمی کا وجود عشق سے ہی کمال تک پہنچتا ہے

Moulana Romi R.A frmatay hain k
wajod e aadmi az ishq me rasad ba kamal
aadmi ka wajod ishq sy hi kamal tk pohanchta hai 
یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا
جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا
yak qadam wehshat sy dars e dafter e imka'n khula
jada ajza e do aalam dasht ka sheeraza tha

وحشت بہ مراد عشق ، درس ۔۔سبق ، دفتر امکاں ۔۔ممکنات کے در ، جادہ ۔راستہ ، اجزائے دوعالم ۔ مکان و لا مکاں کے واقعات و حادثات ۔۔۔۔

کوچہء عشق میں قدم دھرتے ہی عالم دو عالم کے حادثات و واقعات ، ممکنات کے در وا ہوجاتے ہیں ۔۔
عشق ہر ہر شے کی حقیقت کھول کر رکھ دیتا ہے ، گویا عاشق صادق صاحبِ کشف ٹھہرا ۔۔


wehshat ba murad ishq , dafter e imkan , mumkinat k dr, jada , rasta ajza e do aalam , makan o la makan k waqia'at o hadsat...
kocha e ishq mai qadam dhartay hi aalam do aalam k hadsat o waqia'at , mumkinat k dr wa ho jaty hain ..
ishq hr hr shay ki haqeeqat khol kr rakh deta hai goya aashiq sadiq sahib e kashaf thehra ..
خود کو پہچاننا، اپنے وجود کا ادراک ہونا ، اپنے مقام ، اپنی صلاحیتوں سے آگاہ ہوکر اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا خود شناسی ہے ، خودی ہے ۔۔۔
خود شناسی بمنزلہء خدا شناسی
جب اپنی صلاحیتوں کا کامل ادراک ہوجاتا ہے تبھی خدائے واحد پہ کامل یقین بنتا ہے ۔۔حديث نبوي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم ہے کہ
مَنْ عَرَفَ نَفْسَه فَقَدْ عَرَفَ رَبَّه.
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان ليا- اس نے اپنے رب کو پہچان ليا‘‘-
اپنے وجود کا احساس خودی ہے ، اپنے معبود کا سپاس خودی ہے۔۔
وجود کیا ہے، فقط جوہرِ خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
خودی ہی کائنات کا انتظام ہے ، خودی ہی ذات کا استحکام ہے بلکہ خودی ذات ہے ، خودی کائنات ہے ۔۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
خودی حیات کی تصدیق ہے خودی ذات کی تخلیق ہے ۔
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی فقیری میں شاہی لاتی ہے ، امیری میں آگاہی لاتی ہے ، اسیری میں شہنشاہی لاتی ہے ۔۔۔
بے ذوق نمود زندگی موت
تعمیر خودی میں ہے خدائی
اور آج ہم اپنی خودی کی بازیافت سے غافل ہیں ۔۔اپنے وجود کی نفی پہ مائل ہیں حالانکہ ۔۔۔۔
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے۔۔
ذات تو فنا ہونے کے لیے ہے لیکن جو ذات صفات کا مرقع بن جاتی ہے ، وہ فنا پہ غآلب آجاتی ہے اور اپنی حیثیت ، اپنی اہمیت ، اپنے اصل سے رجوع کرنا ہی صفتِ ذات ہیں
ہو اگر خود نگر و خودگر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
خودی سوال نہیں کرتی ،خودی غلام نہیں ہوتی ،خودی تقلید نہیں کرتی ۔۔
خودی کے زور سے دنیا پہ چھاجا
مقامِ رنــــگـــــــــــــ و بو کا راز پاجا
خودی عشق سے زندہ ، علم سے تابندہ ، عمل سے پائندہ ہوجاتی ہے ۔۔۔
خودی کی فطرت میں عشق ہے اور فقر عشق میں کمال لاتا ہے۔۔
حکیمی نامسلمانی خودی کی
کلیمی ، رمزِ پنہانی خودی کی
تجھے گر فقر و شاہی کا بتادوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
خودی تقدیر کی تسخیر کرنا جانتی ہے ، خودی تدبیر کی تعمیر کرنا جانتی ہے ۔۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Friday, 23 January 2015

ازخؤد گزشتگی میں خموشی پہ حرف ہے
موجِ غبار سرمہ ہوئی ہے صدا مجھے

از خود گزشتگی ۔۔آپ بیتی کہنا ۔۔۔

 یہاں خموشی سے مقصود پردہ پوشی تھی ۔۔۔۔۔اپنا حآل زار چھپانا منظور تھا
لیکن خموشی ہی سے قصے کہانیاں تراش لی گئیں ۔۔۔

بقول علامہ اقبال ۔۔۔۔
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ میرا

بقول آرزو لکھنوی ۔۔۔۔
خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی
کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بناڈالا






مجھے انتعاشِ غم نے پئے عرضِ حال بخش
ہوسِ غزل سرائی، تپشِ فسانہ خوانی
mujhy inti'aash e gham ny paye arz e hal bakhshi
havis e ghazal sarai, tapish e fasana khuani
انتعاش۔۔بہتری ، ریکوری۔۔۔۔۔
جب دل پہ غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹتا ہے تو پہلے پہل دل صم بکم ہوجاتا ہے ، سراپا الم ہوجاتا ہے ۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وقت کا مرہم زخموں کو بھرنے لگتا ہے تو زخموں سے متصل پتھر لفظ ، آنسو چوٹیں ، آہوں بھری یادیں کھرنڈ جمتے زخموں کو پھر سے ادھیڑ ڈالتی ہیں ۔۔۔
اسوقت تشنہ زبان رواں ہوجاتی ہے اور غم ایک ایک کو پکڑ پکڑ کر احوال سرائی کرنا شروع کر دیتا ہے ۔۔
غالب اسی بیان کو ہوس غزل سرائی ، تپش فسانہ خوانی سے تعبیر کرتے ہین ۔
inti'aash ...recovery, behtiri....
jb dil py gham o andoh ka pahar tot'ta hai tu pehle pehl dil sum'mum buk'mun ho jata hai , sarapa alam ho jata hai , gham quwat e goyai cheen leta hai ...
phir aahista aahista waqt ka marhum zakhmo'n ko bharnay lgta hai tu zakhmo'n sy mutasil pather lafz , aanso chotain , aaho'n bhari yadain khurand jamtay zakhmo'n ko phir sy odher dalti hain ....
is waqt tashna zuban rawa'n ho jati hai aur gham aik aik ko pakar kr ehwal sarai krna shuro kr deta hai .....
Ghalib isi bayan ko havis e ghazal sarai , tapish e fasana khuani sy tabeer krty hain ....

Wednesday, 21 January 2015

موءرخہ 20 جنوری 2015
میں اپنی بے بسی پہ کھلکھلانا چاہتی ہوں
ہوائے تند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں
میں جھوٹی اور بے معنی تسلی کے مقابل
کوئی دکھ ہو کوئی غم مسکرانا چاہتی ہوں
تمنا اس قدر محوِ تمنا ہوگئی ہے
تمنا کے سحر میں ڈوب جانا چاہتی ہوں
کروں کیا دل کا آخر کوئی سمجھا دے کبھی تو
فقط دل کا قرار و چین پانا چاہتی ہوں
بنتِ طاہرہ طاہرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وقت و حآلات ، واقعات و صدمات، حآدثات و آفات کو جنم دینے لگتے ہیں ۔۔۔
دل ، دل نہیں قبرستان بن جاتا ہے ،
جہاں ہر دن ایک نئی تمنا ، خواہش کو کفنانا ، دفنانا پڑتا ہے ، دل حسرتوں کے شمار میں گرفتار ہوجاتا ہے ، حیرتوں کے اسرار سے بے زار ہوجاتا ہے ۔۔۔
وہ دل غموں کے بوجھ سے ڈوبنے لگتا ہے ، آنکھیں دل کی ایسی لاچاری پہ گہر لٹانے لگتی ہیں ۔۔۔
تب ایک نئی کیفیت کا جنم ہوتا ہے ، دل خود سے انتقام لینے لگتا ہے ، حسرتوں کے مقابل تن جاتا ، خود آزاری کی کیفیت عود کر آتی ہے۔۔
تب آنکھیں جو دل کا آئینہ ہوتی ہیں ، دل کی اس سرگرمی میں اپنا حصہ ڈآلنا نہیں بھولتی ۔۔۔
اپنے ارد گرد وہی کچھ دیکھتی ہیں جو دل دکھاتا ہے ۔۔۔دل جو آنکھوں کا سودائی بن جاتا ہے ، آنکھیں جو دل کے لیے رسوائی خرید لاتی ہیں ۔۔
لیکن یہ زندگی ہے ، زندگی جو آس پہ جی جاتی ہے ، امید پہ بُنی جاتی ہے ، خواہشوں سے لی جاتی ہے ، خوابوں پہ گنی جاتی اور تمناؤں سے سُنی جاتی ہے ۔۔۔
جب ایک خواب مرتا ہے ،تو بندہ خود سے لڑتا ہے ۔۔۔۔۔
جب ایک امید خآک ہوتی ہے ، تو بندہ خود سے ڈرتا ہے ۔۔۔۔
جب ایک تمنا چاک ہوتی ہے تو بندہ خود پہ بگڑتا ہے
لیکن اس لڑنے ، ڈرنے، بگڑنے سے زندگی پھر سے جڑ پکڑلیتی ہے ، پھر سے نمو پانے لگتی ہے ۔۔۔
لیکن پھر بھی اے زندگی میں تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ ہاری ۔۔۔۔۔۔

Tuesday, 20 January 2015

نگہ معمار حسرت ہا چہ آبادی چہ ویرانی
کہ مژگاں جس طرف وا ہو بکفِ دامانِ صحرا ہے

جب وقت و حآلات ، واقعات و صدمات، حآدثات و آفات کو جنم دینے لگتے ہیں ۔۔۔
دل ، دل نہیں قبرستان بن جاتا ہے ،
جہاں ہر دن ایک نئی تمنا ، خواہش کو کفنانا ، دفنانا پڑتا ہے ، دل حسرتوں کے شمار میں گرفتار ہوجاتا ہے ، حیرتوں کے اسرار سے بے زار ہوجاتا ہے ۔۔۔

وہ دل غموں کے بوجھ سے ڈوبنے لگتا ہے ، آنکھیں دل کی ایسی لاچاری پہ گہر لٹانے لگتی ہیں ۔۔۔
تب ایک نئی کیفیت کا جنم ہوتا ہے ، دل خود سے انتقام لینے لگتا ہے ، حسرتوں کے مقابل تن جاتا ، خود آزاری کی کیفیت عود کر آتی ہے۔۔
تب آنکھیں جو دل کا آئینہ ہوتی ہیں ، دل کی اس سرگرمی میں اپنا حصہ ڈآلنا نہیں بھولتی ۔۔۔
اپنے ارد گرد وہی کچھ دیکھتی ہیں جو دل دکھاتا ہے ۔۔۔دل جو آنکھوں کا سودائی بن جاتا ہے ، آنکھیں جو دل کے لیے رسوائی خرید لاتی ہیں ۔۔

نگاہیں حسرتوں کی تعمیر کرنے میں لگ گئیں ہیں ، ان کے آگے چاہے آبادی ہو چاہے بربادی ، چونکہ  آنکھیں دل کی مجرم ، دل کی محرم ہوتی ہیں اس لیے دل کی رنجوری پہ بجھ جاتی ہیں ۔۔۔۔

   اسد یاسِ تمنا سے نہ رکھ امیدِ آزادی
گداز آرزو ہا آبیار آرزو ہا ہے

لیکن یہ زندگی ہے ، زندگی جو آس پہ جی جاتی ہے ، امید پہ کی جاتی ہے ، خواہشوں سے لی جاتی ہے ، خوابوں پہ گنی جاتی اور تمناؤں پہ لی جاتی ہے ۔۔۔

جب ایک خواب مرتا ہے ،تو بندہ خود سے لڑتا ہے ۔۔۔۔۔
  جب ایک امید خآک ہوتی ہے ، تو بندہ خود سے ڈرتا ہے ۔۔۔۔لیکن اس لڑنے ، ڈرنے،  بگڑنے سے زندگی پھر سے جڑ پکڑلیتی ہے ، پھر سے نمو پانے لگتی ہے ۔۔۔
 جب ایک تمنا چاک ہوتی ہے تو بندہ خود پہ بگڑتا ہے
 

Saturday, 17 January 2015

From Bang e Dra ....Jawab e Shikwa
aaj bhi ho jo Ibrahim A.S ka eima'n peda
aag kr skti hai andaz e gulista'n peda
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

dunya ka naqsha aaj bhi wo hi hai , aaj bhi Namrood , Shad'dad , Haman , Firon moujod hai.....
aur aaj bhi hr Firon k liye Mousa A.S ka zahor ho skta hai ...
aaj bhi humari dastaras mai Kalam e RAbani hai , Ahadees e javedani hain ....
دنیا کا نقشہ آج بھی وہی ہے ، آج بھی نمرود ، شداد ، ہامان ، فرعون موجود ہیں ۔۔۔
اور آج بھی ہر فرعون کے لیے موسی کا ظہور ہوسکتا ہے ۔۔
کیونکہ آج بھی ہماری دسترس میں کلامِ ربانی ہے ، احادیثِ جاودانی ہیں ۔۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نُصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
faza e Bader peda kr farishtay teri nusrat ko
uter sktay hain grdo'n sy qatar ander qatar ab bhi
Iqbal insan ko Musalman , Musalman ko Mard e Maidan , Mominana sifat sy mutasif dekhna chahtay hain ....
اقبال انسان کو مسلمان ، مسلمان کو مردِ میدان ، مومنانہ صفات سے متصف دیکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔
momin wo jo Allah Pak ki man kr chalta hai ...
Musalman wo jo Allah Pak ko man kr chalta hai
مومن وہ جو آللہ پاک کی مان کر چلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان وہ جو اللہ پاک کو مان کر چلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری
teri khak mai hai ager sharar tu khayal e fiqr o ghina na kr
k jahan mai nan e sha'eir pr hai madar quwat e Haidiri R.A
sharar e ishq hi krta hai parwarish dil ki , sharar e ishq hi krta hai tarbiyat gil ki ....
شرر ِ عشق ہی کرتا ہے پرورش دل ، شررِ عشق ہی کرتا ہے تربیت گِل کی ۔۔۔۔
ta kuja ay aagahi rang e tamasha bakhtan
chasham wa gr deeda aaghosh e wida e jalwa hai
تا کجا اے آگہی رنگِ تماشا باختن
چشم وا گر دیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے

ta kuja , kahan tk ...bakhtan , to lose ...khona ...
تا کجا کہاں تک ، باختن ، کھونا ۔۔۔۔
aik nazer zahir hai , aik batin ...batini nazer , dil ki aankh mustabsireen, ehl e baseerat ki wa hoti hai ...
ایک نظر ظاہر ہے ایک باطن ، باطنی نظر دل کی آنکھ ، دل کی آنکھ مستبصرین ، اہلِ بصیرت کی وا ہوتی ہے
kahan tk , kb tk insan is fani dunya k by kar jhameelo'n mai uljha rahy ga ...Ghalib basarat ko baseerat sy pur krna chahtay hain ....
chashm wa gr .....ager ander ki aankh khul jaye tu deedar deedni hojaye ga ...
hr shay ki haqeeqat khul jaye gi ...aur jb shay ki haqeeqat khul jaye gi tu is fani mehfil sy aitiqad , eiman , eiqan sb uth jaye ga ...insan apni asal ko ja ly ga ...
کہاں تک ، کب تک انسان اس فانی دنیا کے بے کار جھمیلوں میں الجھا رہے گا، غآلب بصارت کو بصیرت سے پُر کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔چشم وا گر۔۔۔۔اگر اندر کی آنکھ کھل جائے تو دیدار دیدنی ہو جائے گا
ہر شے کی حقیقت کھل جائے گی , اور جب شے کی حقیقت کھل جائے گی تو اس فانی محفل سے اعتقاد ، ایمان ، ایقان سب اٹھ جائے گا انسان اپنی اصل کو جا لے گا ۔۔۔۔
ye mazmon Ghalib by badal Mirza Abdul Qadir Ma'ani By Dil ka hai ...Ghalib ny isay apna lafzi perhan dia hai ....
یہ مضمون غالب نے بے بدل ، مرزا عبدالقادر المعانی بیدل سے لیا ہے غآلب نے اسے اپنا لفظی پیرہن دیا ہے ۔۔۔
ba qol Mirza Abdul Qadir Ma'ani By Dil...
بہ قول مرزا عبدالقادر المعانی بیدل۔۔۔۔
chasham wa krdan kafeel e fursat e nazara neest
pr tu e ein sham'ma aaghosh e wida e mehfil ast
aankh ko kholna nazaray ka mouqa farahum nhi krta , blkay ye tu mehfil ko alwida kehnay ki aik sorat hai ...
چشم وا کردن کفیلِ فرصتِ نظارہ نیست
پر توِ این شمع آغوشِ وداعِ محفل است
یعنی آنکھ کو کھولنا نظارہ کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتا ،بلکہ یہ تو محفل کو الوداع کہنے کی ایک صورت ہے۔
بیدل
From Bal e Jibril....
jisay nan e javien bakhshi hai tu ny
osay bazo e Haider R.A bhi ata kr
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اُسے بازوئے حیدرؓ بھی عطا کر

یہاں اقبال آللہ پاک سے ماضی کو حال کے سانچے میں ڈھالنے کے خواہش مند ہیں ۔۔
فرماتے ہیں کہ آخر حضرت علی رض بھی ہماری ہی طرح ایک عام انسان تھے ، وہ بھی وہی کچھ کھاتے پیتے تھے جو ہم ۔۔
اقبال بارگاہِ خداوندی میں دستِ دعا پھیلاتے ہیں کہ اللہ پاک سے کیا بعید جو وہ آج بھی کسی کو خیبر کشا ٹھہرادے ، قوی و جری مرحب کے مقابل فاتح بنادے ۔۔۔
yahan Iqbal Allah Pak sy mazi ko hal k sanchay mai dhalnay k khuahish mand hain ...
frmatay hain k aakhir Hazrat Ali bhi humari hi trah aik aam insan thy , wo bhi wo hi kuch khatay thy jo hum ...
Iqbal bargah e Khuda wandi mai dast e dua phelatay hain k Allah Pak sy kya baeid jo wo aaj bhi kisi ko Khaiber kusha thehra dy , qawi o jari Marhab k muqabil fateh bna dy ...
From ..Pas Che Bayad Kard...Faqr..
فقر مومن چیست؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر اُو مولا صفات
fiqr momin cheest ? taskheer jahat
banda az taseer ou moula sifat

مومن کا فقر کیا ہے ؟ وہ کائنات کو مسخر کرتا ہے اس کی تاثیر سے غلاموں میں بھی آقاؤن کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں
"What is a Momin's Faqr? Conquest of Time and Space.
It endows man with the qualities of God."
گر انسان اپنی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو خواہشاتِ نفسانیہ کو عشق حکم الٰہی کی آگ میں ڈال دے اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس میں صفات ایزدی کا رنگ جھلکنے لگے گا۔۔
gr insan apni marfat hasil krna chahta hai tu khuahishat e nafsaniya ko ishq hukam e ilahi ki aag mai dal dy is ka nateeja ye ho ga k is mai sifat e eizdi ka rang jhalaknay lagy ga ....
یعنی جب انسان نفس کے اعتبار سے فانی ہوجائے گا تو ذات کے لحاظ سے باقی ہوجائے گا۔۔
'موتو قبل ان تموتو ''اپنی خوہشات مرضی کو خدائے تعالٰی کی مرضی کے تابع کردو۔۔
yani jb insan nafs k aitibar sy fani ho jaye ga tu zat k lihaz sy baqi ho jaye ga ....Moutu qabla an tamoutu ....apni khuahishat marzi ko khuda e ta'ala ki marzi k tabay kr do ..
جب نفس کی آلائش ختم ہوجائے گی تو خودی کندن کی طرح چمکنے لگے گی
اور اس وقت انسان اپنی حقیقت سے آگہی اور خداشناسی خود شناسی کے مرحلے سے گزر سکے گا
jb nafs ki aalayish khatam ho jaye gi tu khudi kundan ki trah chamaknay lagy gi aur os waqt insan apni haqeeqat sy aagahi aur khuda shanasi , khud shanasi k marahil sy guzer sakay ga ....
فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پــــــــر!
fana ko sonp gr mushtaq hai apni haqeeqat ka
farogh e talay e khashak hai mouqof gul khan pr

غالب آگہی کے جانکاہ خیال سے ہی متعارف نہیں کرواتے بلکہ اسکے نتائج و طرائق کا رستہ بھی دکھاتے ہیں
خس و خاشاک(گھاس پھونس) بظاہر نہایت حقیر بے مایہ ہیں مگر جب یہ ہی خس وخاشاک اپنا وجود گلخن(بھٹی ) کو سونپ دیتے ہیں تو ان میں آگ کے خواص پیدا ہوجاتے ہیں یہی اسکے نصیب کا اوج ہے
Ghalib aagahi k jan kah khayal sy mutarif hi nhi kratay blkay is k nataij o taraiq ka rasta bhi dikhatay hain ....
khas o khashak ba zahir nihayat haqeer , by maya hain mager jb ye apna wajod gul khan , bhat'ti ko sonp detay hain tu in mai aag k khuas peda ho jatay hain , ye hi is k naseeb ka ouj hai ...

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل!
گرمی بزم ہے ایک رقص شرر ہونے تــک
yak nazer baish nhi fursat e hasti ghafil
grmi e bazm hai aik raqs e sharar honay tk

یہ کائنات اسکا وجود تری ذات سے ہے (با مراد انسان)
اور تیری ذات'اسکی ایک نظر (حکم) سے معدوم ہوسکتی ہے
یہ جہان جو تجھ سے ہے اور تیری حیثیت ایک چنگاری شرر کے بہ مثل ہے جو الاؤ سے اڑ کر فضا میں بلند ہوتی ہے مگر بلآخر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے
اور تو جو اس دنیا کو اول آخر سمجھا ہوا ہے تیرے وجود کی حرارت سے ہی یہ موجود تھا ورنہ نفس لاصل تو ہے اپنے افعال کا ذمہ دار !
ye kaienat , is ka wajod teri zat ba murad insan sy hai , aur teri zat is ki ba murad Allah Pak ki aik nazer , hukam sy madom ho skti hai ...
ye jahan jo tujh sy hai aur teri hesiyat aik chingari sharar k ba misal hai jo alao sy ur kr faza mai buland hoti hai mager bil aakhir apna wajod kho beth'ti hai ...
aur tu jo is dunya ko awal aakhir smjha hua hai tere wajod ki hararat sy hi ye moujod tha wrna nafas ul asal tu hai apny af'aal ka zimay dar ...
zindagani nhi baish az nafas e chand Asad
ghaflat aarami e yara'n py hain khanda gull o subah
زندگانی نہیں بیش از نفس چند اسد
غفلت آرامی یاراں پہ ہیں خندہ گل و صبح

زندگی جو ادھار سانسوں پہ محیط ہے جسکا درَک کوئی کوئی ہی کرپاتا ہے
عمومی افراد اس مسافر خانے کو قیام گاہ سمجھ بیٹھتے ہین انکی اس غفلت نادانی پہ گل خنداں ہیں
zindagi , jo udhar sanso'n py muheet hai , jis ka idrak koi koi hi kr pata hai ...amomi afrad is musafir khanay ko qayam gah samjh beth'tay hain in ki is ghaflat , nadani py gull khanda'n hain ....
ہے طلسم دہر میں صد حشر پاداش عمل
آگہی غافل ایک امروز بے فردا نہیــــــــں


jo log abhi tk is haqeeqat sy aagah nhi hain aur is do roza fani dunya ko baqi smjhay hoye hain ...
Ghalib un ki aish o ishrat ki bunyadi wajah un ki ghaflat btatay hain aur rashk ka izhar krtay hain ....
hai tilsam e dehar mai sd hasher e padash e amal
aagahi ghafil aik amroz hai frda nhi
جو لوگ ابھی تک اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں اور اس دو روزہ فانی دنیا کو باقی سمجھے ہوئے ہیں غالب انکی عیش و عشرت کی بنیادی وجہ انکی غفلت بتاتے ہیں اور رشک کا اظہار بھی کرتے ہیں
ہے طلسم دہر میں صد حشر پاداش عمل
آگہی غافل ایک امروز بے فردا نہیــــــــں
ghafilo'n ko tambeeh krtay hain k zindagi is na paiedar dunya tk mehdood nhi ....aisa nhi hai k aaj jo amal tum kr rahy ho , mr kr mit'ti mai mil jany k bad is ki poch nhi ho gi ...
roz e amal k bad roz e jaza sy bhi guzarna ho ga ....
غافلوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ زندگی اس ناپائدار دنیا تک محدود نہیں
ایسا نہیں ہے کہ آج جو عمل تم کررہے ہو 'مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد اسکی پوچھ نہیں ہوگی روز عمل کے بعد روز جزا سے بھی گزرنا پڑے گ

rashk hai aasayish e arbab e ghaflat pr Asad
paich o tab dil naseeb khatir aagah hai
رشک ہے آسایش ارباب غفلت پر اسد
پیچ و تاب دل نصیب خاطر آگاہ ہــــــــے

ye dunya nigah k fareb k siwa kuch aur nhi ...
iski hudood , hesiyat humari musta'ar shuda sanso'n ki mud'dat tk hai , mud'dat bhi wo jo muqar'r nhi....
ye insan ka apni haqeeqat sy wo rishta aagahi hai jo hr khushi ki laz'zat pr ghalib aa jati hai , phir is aarzi zindagi ko guzarna , is ki laz'zato'n sy behra wr hona by ma'ani ho jata hai ...
insan ko huma waqt apni by hesiyati ka idrak rehnay lagy tu wo muzhamil o by chain ho jata hai ....
یہ دنیا نگاہ کے فریب کے سو کچھ اور نہیں
اسکی حدود حیثیت ہماری مستعار شدہ سانسوں کی مدت تک ہے مدت بھی وہ جو مقرر نہیں
یہ انسان کا اپنی حقیقت سے وہ رشتہ آگہی ہے جو ہر خوشی کی لذت پہ جب غالب آجاتی ہے تو اس عارضی زندگی کو گزارنا اسکی لذتوں سے بہرہ ور ہونا بے معنی ہوجاتا ہے انسان کو ہمہ وقت اپنی بے حیثیتی کا ادراک رہنے لگے تو وہ مضمحل بے چین مضطرب ہوجاتاہے

isi iztirab ki jhalak humain Iqbal k pas bhi milti hai ...
meri basat kya hai tab o tab e yak nafas
sholay sy by mehal hai ulajhna sharar ka

kr pehle mujh ko zindagi e javeda'n ata
phir zouq o shoq dekh dil e by qarar ka
اسی اضطراب کی جھلک ہمیں اقبال کے ان اشعارمیں بھی ملتی ہے
میری بساط کیا ہے ؟ تب و تاب یک نفس
شعلہ سے بے محل ہے الجھنا شرار کا

کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
Mirza Ghalib.....
ta kuja ay aagahi rang e tamasha bakhtan
chasham wa gr deeda aaghosh e wida e jalwa hai
تا کجا اے آگہی رنگِ تماشا باختن
چشم وا گر دیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے

ta kuja , kahan tk ...bakhtan , to lose ...khona ...
تا کجا کہاں تک ، باختن ، کھونا ۔۔۔۔
aik nazer zahir hai , aik batin ...batini nazer , dil ki aankh mustabsireen, ehl e baseerat ki wa hoti hai ...
ایک نظر ظاہر ہے ایک باطن ، باطنی نظر دل کی آنکھ ، دل کی آنکھ مستبصرین ، اہلِ بصیرت کی وا ہوتی ہے
kahan tk , kb tk insan is fani dunya k by kar jhameelo'n mai uljha rahy ga ...Ghalib basarat ko baseerat sy pur krna chahtay hain ....
chashm wa gr .....ager ander ki aankh khul jaye tu deedar deedni hojaye ga ...
hr shay ki haqeeqat khul jaye gi ...aur jb shay ki haqeeqat khul jaye gi tu is fani mehfil sy aitiqad , eiman , eiqan sb uth jaye ga ...insan apni asal ko ja ly ga ...
کہاں تک ، کب تک انسان اس فانی دنیا کے بے کار جھمیلوں میں الجھا رہے گا، غآلب بصارت کو بصیرت سے پُر کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔چشم وا گر۔۔۔۔اگر اندر کی آنکھ کھل جائے تو دیدار دیدنی ہو جائے گا
ہر شے کی حقیقت کھل جائے گی , اور جب شے کی حقیقت کھل جائے گی تو اس فانی محفل سے اعتقاد ، ایمان ، ایقان سب اٹھ جائے گا انسان اپنی اصل کو جا لے گا ۔۔۔۔
ye mazmon Ghalib by badal Mirza Abdul Qadir Ma'ani By Dil ka hai ...Ghalib ny isay apna lafzi perhan dia hai ....
یہ مضمون غالب نے بے بدل ، مرزا عبدالقادر المعانی بیدل سے لیا ہے غآلب نے اسے اپنا لفظی پیرہن دیا ہے ۔۔۔
ba qol Mirza Abdul Qadir Ma'ani By Dil...
بہ قول مرزا عبدالقادر المعانی بیدل۔۔۔۔
chasham wa krdan kafeel e fursat e nazara neest
pr tu e ein sham'ma aaghosh e wida e mehfil ast
aankh ko kholna nazaray ka mouqa farahum nhi krta , blkay ye tu mehfil ko alwida kehnay ki aik sorat hai ...
چشم وا کردن کفیلِ فرصتِ نظارہ نیست
پر توِ این شمع آغوشِ وداعِ محفل است
یعنی آنکھ کو کھولنا نظارہ کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتا ،بلکہ یہ تو محفل کو الوداع کہنے کی ایک صورت ہے۔
بیدل

Thursday, 15 January 2015



غافل بوہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
بے شانہء صبا نہیں طرہ گیاہ کا
ghafil ba weham e naz khud aara hai wrna ya'n
by shana e saba nhi tur'ra giyah ka

یہاں لفظی مفہوم میں کچھ بھید نہین محض یہ کہ ''ایک گھاس کی پتی بھی ایسی نہیں جس کو صبا نہ سنوارتی ہو۔۔ ''
yahan lafzi mafhoom mai kuch bhaid nhi mehaz ye k ....aik ghas ki pat'ti bhi aisi nhi jis ko saba na sa'nwarti ho ....

ہاں معنوی قدر و قیمت خاصی بھاری ہے ۔۔
han ma'anwi qadr o qeemat khasi bhari hai ...

  بے شک اللہ پاک کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔۔
انسان احمق ہے جو میں کے نشے میں ڈوبا ہوا ہے ،صاحبِ عقل و صاحبِ تدبیر ِ حسن ہونے کے گمان میں خود پہ نازاں رہتا ہے ۔۔۔حقیقت تو یہ ہے کہ انسان محض ایک کٹھ پتلی ہے ۔۔کیونکہ تدبیر سے آگے تقدیر ڈیرہ ڈالے رکھتی ہے ۔۔
by shak Allah Pak k hukum k baghair pat'ta bhi nhi hil skta ....
insan ahmaq hai jo main k nashay mai doba hua hai , sahib e aqal o sahib e tadbeer e husan honay k guman mai khud py naza'n rehta hai .....
haqeeqat tu ye hai k insan mehaz aik kath putli hai , kyn k tadbeer sy aagy taqdeer dera dalay rakhti hai ...

انسان صرف ایک زریعہ ہے جو ہوتا ہے اللہ پاک سے ہوتا ہے ، اللہ پاک  کے غیر سے کچھ نہیں ہوتا
یہ انسان کی نادانی ہے جو وہ خود کو صاحبِ تدبیر گرداننے لگتا ہے ۔
insan sirf aik zrya hai jo hota hai Allah Pak sy hota hai, Allah Pak k ghair sy kuch nhi hota ...ye insan ki nadani hai jo wo khud ko sahib e tadbeer grdan'nay lgta hai ...
 
ba qol Allam Iqbal

میری مشاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو
کہ فطرت خودبخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
meri mashatgi ki kya zarorat husan e ma'ani ko
k fitrat khud ba khud krti hai lalay ki hina bndi

Wednesday, 14 January 2015

Mirza Ghalib.....

ki hai wa ehl e jaha'n ny ba gulistan e jaha'n
chashm e ghaflat ,nazer e shabnum e khor na deeda
کی ہے وا اہلِ جہاں نے بہ گلستانِ جہاں
چشمِ غفلت نظرِ شبنمِ خور نادیدہ

چشمِ غفلت، لاپرواہ نظر ۔۔۔نظرِ شبنمِ خور ،شبنم کھائی نظر ۔۔۔نادیدہ ، نابینا ۔۔۔
chashm e ghaflat =la parwah nazer , nazer e khor e shabnum= shabnum khai nazer  , na deeda= na beena

اہلِ جہاں بہ مراد دنیا دار ۔۔ دنیا داروں نے باغِ دنیا پہ نظر ڈالی بھی تو کیا ڈالی ۔۔جس طرح آنکھ میں پانی آجانے سے نظر دھند لا جاتی ہے، بالکل ویسے۔۔
ehl e jaha'n ba murad dunya dar , dunya daro'n ny bagh e dunya pr nazer dali bhi tu kya dali ....jis trah aankh mai pani aa jany sy nazer dhund la jati hai ...bilkul wese ..

dikhai tu deta hai lekin ba qol Hazrat E Iqbal R.A
دکھائی تو دیتا ہے لیکن بقول حضرتِ اقبال رح ۔۔۔

اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا
ay ehl e jaha'n zouq e nazer khob hai lekin
jo shay ki haqeeqat ko na smjhay wo nazer kya

بصارت عطیہء خداوندی میں شمار ہوتی ہے ، لیکن بصیرت عام نہیں ہوتی
بصارت خام ہوتی ہے اور بصیرت بے دام نہیں ہوتی ، بصیرت وام نہیں ملتی ۔۔۔
 بصارت  نورِ فراست سے محروم​ ہوتی ہے اور بصیرت تجلیات سے معمور ہوتی ہے ۔
basarat atya e khuda wandi mai shumar hoti hai , lekin baseerat aam nhi hoti ...basarat kham hoti hai aur baseerat by dam nhi hoti ....baseerat wam nhi milti ...basarat noor e farasat sy mehroom hoti hai aur baseerat tajal'liyat sy ma'amoor hoti hai ..

بقول حضرت واصف علی واصف رح
” اگر ذوقِ نظر میسر ہو تو یہ کائنات ایک عجیب تماشا ہے ۔ کرنوں میں آفتاب ہیں ، قطروں میں بحر ہیں ، حباب میں دریا ہیں ، ذرّوں میں دشت ہیں۔ دیکھنے والی نظر ہو تو نظاروں کی کمی نہیں''
ba qol Hazrat Wasif Ali Wasif R.A...
''ager zouq e nazer mayasar ho tu ye kaienat aik ajeeb tamasha hai , kirno'n mai aaftab hain , qatro'n mai behar hain , habab mai drya hain , zr'ron mai dasht hain ...dekhnay wali nazer ho tu nazaro'n ki kami nhi

Tuesday, 13 January 2015

From ...Payam e Mashriq....Shabnum

 mn aish hum aaghoshi dryana khareedam
aa'n bada k az khuaish raba'id nachasheedam

az khud na rameedam
z aafaq bareedam
br lala chakeedam

من عیش ہم آغوشی دریانہ خریدم
آں بادہ کہ از خویش رباید نچشیدم

از خود نہ رمیدم
ز آفاق بریدم
بر لالہ چکیدم

main ny drya sy hum aaghoshi ka lutf qabol na kiya , wo sharab jo apni sudh budh bhula dy nhi chakhi ...(jo mujhy apni khudi sy ghafil kr dy)...
main apny aap sy dor nhi hoi ...
aafaq(dunya) sy kt gai
aur gull lala pr tapak pari

میں نے دریا سے ہم آغوشی کا لطف قبول نہ کیا ، وہ شراب جو اپنی سدھ بدھ بھلادے نہیں چکھی ۔۔۔جو مجھے اپنی خودی سے غآفل کر دے ، میں اپنے آپ سے دور نہیں ہوئی ۔۔۔آفاق۔۔۔دنیا ۔۔۔ سے کٹ گئی ، اور گل لالہ پر ٹپک پڑی ۔۔۔
Mirza Ghalib .....
fishar e tangi e khalwat sy banti hai shabnum
saba jo ghunchay k parday mai ja nikalti hai
فشارِ تنگیِ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں جا نکلتی ہے

یہاں شبنم کی نمو کا خلاصہ سادہ لفظوں میں آشکارہ ہے ۔۔سورج ڈھلنا ، چاند کا نکلنا ، دو وقتوں کا ملنا ۔۔۔۔۔ماحول کا بدلنا ، دن کی حرارت کی رات کی شرارت ، دن میں پانی بھاپ ، رات میں بھاپ پانی ۔۔۔۔
یہی شبنم ہے ، پاکیزہ ، مصفا ،مطہر
ہوا کا دباؤ ، پھول سے ٹکراؤ ، نکہتوں کا بہاؤ ۔۔۔۔۔قدرت ِ خدا وندی کا داؤ۔۔۔۔۔۔۔
yahan shabnum ki namo ka khulasa sada lafzo'n mai aashkara hai ...
soraj dhalna , chand ka niklna , do waqto'n ka milna , mahol ka badlna ,
din ki hararat , rat ki shararat ....din mai pani bhap , rat mai bhap pani ...
yehi shabnum hai ...pakeeza , musaf'fa mutahir ....
hawa ka dabao , phol sy takrao , nikhato'n ka bahao , qudrat e Khuda wandi ka dao ....

From Zarb e Kaleem ....
khenchain na ager tujh ko chaman k khas o khashak
gulshan bhi hai aik sr sra parda e aflak
کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک
گلشن بھی ہے اک سر سرا پردۂ افلاک
حیف ! بے حاصلیِ اہلِ ریا پر، غالبؔ
یعنی ہیں ماندہ ا زا ں سو و ازیں سو راندہ
heef by hasli ehl e riya pr Ghalib
yani hain manda za'n so wa azee'n so randa

ریاکاری و خود نمائی ایک ایسی لعنت ہے ہلاکت ہے جو انسان کو کہیں کا نہیں رکھتی ، دھوبی کا کتا بنا چھوڑتی ہے جو نہ گھر کا ہوتا ہے نہ گھاٹ کا ۔۔۔
نمائش و دکھاوے کے اعمال کی بیشتر احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اقوالِ اکابر میں مذمت و فہمائش کی گئی ہے ۔۔
ریاکاری ایسی خرابی ہے جو آپکو لادین تک کرنے کے در پئے آزار ہوجاتی ہے ۔۔۔
غآلب کہتے ہیں کہ ۔۔۔
ریاکاروں کی بے حاصلی پہ افسوس ہے جو انہیں سراسر خسارے کا خریدار بنا دیتی ہے ۔۔
riya kari o khud numai aik aisi lanat hai , halakat hai jo insan ko kahin ka nhi rakhti ....dhobi ka kut'ta bna chorti hai jo na gher ka hota hai , na ghat ka ....
numayish o dikhaway k aamal ki baish tr ahadees e Nabwiya S.A.W aur aqwal e akabir mai muzam'mat o fehmayish ki gai hai ...
riya kari aisi kharabi hai jo aap ko by deen tk krnay k dr paye aazar ho jati hai ...
Ghalib kehtay hain k ...
riya karo'n ki by hasili py afsos hai jo inhay sra sr khasaray ka khareedar bn adeti hai ....

ba qol Moulana Romi R.A... 
بقول مولانا رومی رح۔۔۔۔۔۔۔

 ما دریں انبار گندم می کنیم
گندم جمع آمدہ گم می کنیم

hum is jahan mai nekiyo'n ka gandum jama krtay hain , aur jama shuda gandum ko phir gum kr detay hain ...
ہم اس جہاں میں نیکیوں کا گندم جمع کرتے ہیں اور جمع شدہ کو پھر گُم کردیتے ہیں ۔

می نیندیشیم ما جمع وحوش
کیں خلل در گندم ست از مکر موش

hum nhi sochtay ye nuqsan gandum k zakheeray ka chohay k muker sy hai ...
ہم نہیں سوچتے یہ نقصان گندم کے ذخیرے کا چوہے کے مکر سے ہے ۔

موش تا انبار ماحفرہ زدہ ست
وزنش انبار ما خالی شدہ ست

nafs k chohay ny jb sy humari nekiyon k zakheeray mai sorakh kr liya hai tu is k fun sy humara zakheera khali ho gaya hai.. .
نفس کے چوہے نے جب سے ہماری نیکیوں کے ذخیرے میں سوراخ کرلیا ہے تو اسکے
فن سے ہمارا ذخیرہ خالی ہوگیا ہے۔

اول اے جان دفع شر موش کن
بعد ازیں انبار گند م کوش کن

ay meri jan pehle chohay ki shararat aur chori ko dafa kr phir gandum ko zakheera krnay ki saie o mehnat kr ....
اے میری جان! پہلے چوہے کی شرارت اور چوری کو دفع کر پھر گندم کو ذخیرہ کرنے کی سعی محنت کر۔۔

From Bang e Dra ...
hathon sy apny daman e dunya nikal gaya
rukhsat hua dilo'n sy khayal e ma'ad bhi

ہاتھوں سے اپنے دامنِ دنیا نکل گیا
رخصت ہوا دلوں سے خیالِ معاد بھی


خواہشِ دل ہے زباں کو سببِ گفت و بیاں
ہے ، سخن ، گرد ز دامانِ ضمیر افشاندہ
khuahish e dil hai zuba'n ko sabab e guft o baya'n
hai sukhan , gard z daman e zameer afshanda

ایک سیدھے سادے بیان کو غالب نے خوبصورت لٖفظوں کے پیرہن میں مثال بنادیا ہے ۔۔
کہتے ہیں انسان محض دلی جذبات کے پیشِ نظر آمادہء گفتگو ہوتا ہے ۔۔۔
سخن دانی ضمیر کی ، دل کی آواز ہوتی ہے ، ضمیر کی گَرد جو جھاڑی جاتی ہے ، افشاں کرنا ہی سخن سنجی کے مترادف ہے ۔۔۔
aik seedhay saday bayan ko Ghalib ny khobsorat lafzo'n k perhan mai misal bna diya hai ....
kehtay hain k insan mehaz dili jazbat k paish e nazer aamada e guftugo hota hai ...
sukhan dani zameer ki , dil ki aawaz hoti hai ...zameer ki gard jo jhari jati hai , afsha'n krna hi sukhan sanji k mutaradif hai ...

From Bang e Dra ...

mujh mai fryad jo pinha'n hai sunao'n kis ko
tapish e shoq ka nazara dikhao'n kis ko
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سناؤن کس کو
تپش ِ شوق کا افسانہ دکھاؤں کس کو


koi aagah nhi batin e hum dee gr sy
hai , hr aik fard jahan mai waraq e na khuanda

کوئی آگاہ نہیں باطنِ ہم دیگر سے
ہے ، ہر اک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ


بے شک سوا اللہ پاک کے کون دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔۔ہر انسان دوسرے انسان کے دل کی بات کیونکر جان سکتا ہے ۔۔۔۔ہر ایک دوسرے کے لیے ایک ورقِ ناخواندہ ہے لاعلم ہے۔۔

by shak siwa Allah Pak k kon dilo'n k bhaid jan'nay wala hai ....hr insan dosray insan k dil ki bat kyn kr jan skta hai , hr aik dosray k liye aik waraq e na khuanda hai , la ilim hai ....  
Mirza Ghalib.....
khalq hai safha e ibrat sy sabaq na khuanda
wrna hai charkh o zamee'n yk waraq e gr danda

خلق ہے صفحۂ عبرت سے سبق ناخواندہ
ورنہ ہے چرخ و زمیں یک ورقِ گرداندہ


کہا جاتا ہے کہ دوسروں کے تجربات سے سبق لینا کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے ۔۔۔لیکن کیا کیا جائے زمانے کے چلن کو کہ اب ڈھونڈے سے بھی چشمِ عبرت منتظر نہیں ملتی ..

یہاں زمین و آسمان کی غلام گردش کو ورق گردانی سے تشبیہہ دینا ایک بالکل نئی مثال ہے ۔۔زمیں و آسمان مسلسل گردش میں ہیں ، کسی شے کو قرار ثبات نہیں ۔۔

بقول سیف الدین سیف ۔۔۔
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

کہا جاتا ہے کہ ''تجربے یاد رکھنے کا نام عقل ہے''

kaha jata hai k dosron k tajurbat sy sabaq lena kamyabi ki zamanat bn jata hai ...lekin kya kia jaye zamanay k chalan ko k ab dhonday sy bhi chashm e ibrat muntazir nhi milti ....
yahan zameen o aasman ki gardish ko waraq grdani sy tashbeeh dena aik bilkul nai misal hai , zameen o aasman musalsl gardish mai hain , kisi shay ko qarar , sabat nhi .

ba qol Saif U Din Saif ...
saif andaz e bayan rang badal deta hai
wrna dunya mai koi bat nai bat nhi

kaha jata hai k ''tajurbay yad rakhnay ka nam aqal hai''

Monday, 12 January 2015

مانا کہ فنکار پبلک پراپرٹی بن جاتے ہیں ۔۔۔۔لیکن ہمارے نزدیک صرف ان کا فن تک معاملہ موقوف ہوجانا چاہیے ۔۔۔
لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا کے پاس لمبی زبان ہے ، نقارے ہیں ۔۔۔وہ شاعر ، مصنف ، مصور کی تخلیق میں ان کو ڈھونڈنا چاہتے ہیں ، خود ان کی شخصیت کو متصور کرتے ہیں ۔۔۔
حالانکہ دیکھا جائے تو شاعر ، مصنف ، مصور عموما خواب سنوارتا ہے ، پروتا ہے ، سجاتا ہے ۔۔۔
کبھی اس کی تخلیق خود اس کے حال کی فریاد ہوتی ہے ، ماضی کی یاد ہوتی ہے ، مستقبل کی بنیاد ہوتی ہے ۔۔۔
فنکار اپنے فن سے بڑآ ہوتا ہے ، اپنے قد سے نہیں فن کے قد سے ۔۔۔۔
ماسوائے ایک پیرِ کاملﷺ کے کوئی انسان کامل نہیں ۔۔۔۔۔ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔
ہر انسان کی اپنی ایک نجی زندگی بھی ہوتی ہے ہر انسان اپنی عقل سے سوچتا ہے ۔
خدا کو کسی نے نہیں دیکھا عقل سے پہچانا ہے ، عقل کہتی ہے غالب نے یونہی دستنبو قدیم فارسی خط میں تحریر نہیں کی ۔۔
اگر غالب کو دنیاوی معاملہ فہم انسان گردانا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا ۔۔۔
اس رسم الخط کے اختیار کرنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں ، کئی کام غالب نے اس سے نکلوانے تھے ۔۔
اس قدر مشکل و دقیق زبان استعمال کرنا خود کو ملامت سے سلامت رکھنا بھی تھا ۔۔۔
سوا اللہ پاک کے کون جانے


mana k funkar public property bn jaty hain , lekin humare nazdeek sirf in k fun tk muamla mouqof ho jana chahiye ...
lekin kya kiya jaye k dunya k pas lambi zuban hai , naqaray hain ....
wo shayer , musanif , musavir ki takhleeq mai khud un ko dhondna chahtay hain , khud un ki shakhsiyat ko mutasavir krtay hain ..
hala'n k dekha jaye tu shayer musavir , musanif amoman khuab sa'nwarta hai , pirota hai ., sajata hai ...
kabhi os ki takhleeq khud os k hal ki faryad hoti hai , kabhi mazi ki yad hoti ...aur kabhi mustaqbil ki bunyad hoti hai ...
funkar apny fun sy bara hota hai , apny qd sy nhi , apny fun k qd sy ...
ma siwaye aik Peer e Kamil S.A.W k koi insan kamil nhi , ho hi nhi skta ...
hr insan ki apni aik niji zindagi bhi hoti hai...hr insan apni aqal sy sochta hai ...Khuda ko kisi ny nhi dekha aqal sy pehchana hai ...
aqal kehti hai Ghalib ny yonhi Dastambo qadeem farsi khat mai tehreer nhi ki ....is rasm ul khat k ikhtiyar krny k peechay kaie wajohat hain , kaie kam Ghalib ny is sy niklwany thy ...
ager Ghalib ko dunyawi muamla fehum insan grdana jaye tu kuch ghalat na ho ga ...   
is qader mushkil daqeeq zuban istimal krna khud ko malamat sy salamat rakhna bhi tha ...
siwa Allah Pak k kon jany ...

Friday, 9 January 2015

Dastambo .....Mirza Asad Ullah Khan Ghalib ...

aisi usrat , aisi by basi , by kasi jo aasab ko mafloj , aaza ko mazrob , ...soch ko mazool kr deti hai ...
aisi maflojo , aisi mazrobi aisi ma'azoli jo mujas'sim herat bna dalti hai ....jo mujas'sim ibrat kr dalti hai ..
aisa khof , aisi khastagi , drmandigi jo hr tehreek ko tehleel kr dalti hai ...
ایسی عسرت ، ایسی بے بسی ، بے کسی جو اعصاب کو مفلوج ۔۔۔۔اعضآء کو مضروب ۔۔سوچ کو معزول کردیتی ہے ۔
ایسی مفلوجی ۔۔ایسی مضروبی ۔۔۔ایسی معزولی جو مجسم حیرت بناڈالتی ہے ، جو مجسم عبرت کر ڈالتی ہے۔۔
ایسا خوف ، ایسی خستگی ، درماندگی جو ہر تحریک کو تحلیل کر ڈالتی ہے ۔۔۔

aisa Ghalib ny dekha ....ye sb dekh kr Ghalib ny an dekha kia aur ....Ghalib aise gham sy by his nhi hoye unhony us gham hi ko by his kr dala ...
ایسا غالب نے دیکھا ۔ یہ سب غآلب نے دیکھ کر ان دیکھا کیا اور غالب ایسے غم سے بے حس نہیں ہوئے، انہوں نے اس غم ہی کو بے حس کرڈالا ۔۔۔

bhok ki khatir zamanay ki by niyazi o by imtiyazi ko qadmo'n talay rond kr un hi qadmo'n mai ja bethay jo qadam sabz thy , jo zalim , jal'lad , sitam eijad thy ...
بھوک کی خاطر زمانے کی بے نیازی و بے امتیازی کو قدموں تلے روند کر اُن ہی قدموں میں جابیٹھے جو قدم سبز تھے ، جو ظالم ، جلاد ستم ایجاد تھے ۔۔۔

wal'lah ky a cheez hoti hai bhok , pait ki bhok tu hoti hi hai , nafs bhi bhioka hota hai , tareef ka touqeer ka ..
wo bhok jo zil'lat ki chingariyo'n sy lutf lena sikha deti hai , khud tarsi jis ka srmaya hai ...
Heef wo bhok jo insan ko qa'ar e ma'azlat mai dhakaial deti hai ..
jazbati shorisho'n ki yourish mai rakhna dal deti hai ...jo aap ki ghairat ko kasa thama deti hai ...
وللہ کیا چیز ہوتی ہے بھوک ۔۔۔۔۔پیٹ کی بھوک تو ہوتی ہی ہے ، نفس بھی بھوکا ہوتا ہے ، تعریف کا ، توقیر کا ۔۔۔۔
وہ بھوک جو ذلت کی چنگاریوں سے لطف لینا سکھا دیتی ہے ، خود ترسی جس کا سرمایہ ہے ۔۔
حیف وہ بھوک جو انسان کو قعرِ معزلت میں دھکیل دیتی ہے ۔۔۔جذباتی شورشوں کی یورش میں رخنہ ڈال دیتی ہے ۔۔۔
جو آپ کی غیرت کو کاسہ تھما دیتی ہے۔۔


Inqilab 1857 aisi aisi rooh frsa , larza khaiz , matam bapa , noha sara tareekh ...
khak o khon mai lathri tareekh ...
aisi tareekh jis ka hr hr safha aaho'n , aanso'on sy dagh dar hai ...
ye tareekh Ghalib k ehad mai raqam hoi , khon e dil sy qalam band hoi ...
انقلاب 1857 ایسی ایسی روح فرسا ، لرزہ خیز ، ماتم بپا ، نوحہ سرا تاریخ ۔۔۔۔
خاک و خون سے لتھڑی تاریخ ۔۔۔
ایسی تاریخ جس کا ہر ہر صفحہ آہوں ، آنسوؤن سے داغدار ہے ۔۔۔۔
یہ تاریخ غآلب کے عہد میں رقم ہوئی ۔۔۔خونِ دل سے قلم بند ہوئی ۔۔۔
 

Thursday, 8 January 2015

The ULTIMATE IMMORTAL REALITY

From BAl e Jibril ....Zouq o Shoq....

گرمی آرزو فراق، شورشِ ہائے ہو فراق
موج کی جُستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق
grmi e aarzo firaq , shorish e haye ho firaq
mouj ki justujo firaq , qatray ki aabro firaq

علامہ کی شاعری زوایہ فکر جسکا عکس انکے مکمل کلام میں نظر آتا ہے
اسکی بھرپور ترجمانی اس شعر میں نظر آتی ہے ۔
Allama ki shayeri zawiya e fiker jis k aaks in k mukam'mal kalam mai nazer aata hai , is ki bher por trjumani is sher mai nazer aati hai ..

وحدت الوجودی تصورِ وحدت اور اقبال کے تصورِ وحدت میں فرق کیا ہے؟
'' وحدت الوجودی تصورِ وحدت میں یا وحدتِ وجود کے تناظر سے انسان
فعال حالت میں ایک سطحِ موجودیت سے اوپر اُٹھ کر سرگرمِ عمل نہیں ہوسکتا۔
جسکو ہمارے ہندوستانی شعراء موضوع بناتے ہیں ۔۔
wehdat ul wajodi tasavur e wehdat aur Iqbal k tasavur e wehdat mai farq kya hai ? ...
wehdat ul wajodi tasavur e wehdat mai ya wehdat e wajod k tanazur sy insan fa'al halat mai aik satah moujodiyat sy ouper uth kr sr garm e amal nhi ho skta ....
jis ko humaray hindostani shora mouzu bnatay hain ...

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ 'انا البحر' ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا(غالب)
یعنی وجود کے حقائق کی اقلیم میں انسان اپنا فاعل بالاختیار ہونا ثابت نہیں
کرسکتا۔''
ba qol Ghalib...
dil e hr zr'ra hai saz e anal behr
hum is k hain hmara pochna kya
yani wajod k haqa'iq ki aqleem mai insan apna fa'il bil ikhtiyar hona sabit nhi kr skta ....

اقبال نے وجود کی حقیقت کے ہر مرتبے پر انسان کو اپنے ذاتی امتیاز اور اللہ سے غیریت کے اُصول پر قائم رکھتے ہوئے ثابت کیا
''انسان کی تمام وجودی حقیقت، جذبہ فراق اور شعورِ فراق پر مبنی ہے۔ اس کی پوری شناخت، وجود کی اور شعور کی، فراق کے مادّے سے تیار ہوئی۔
فراق کا یہ مادّہ اللہ کے وفورِ وجود سے پیدا ہوا۔
اس نے چاہا کہ مَیں خود کو ظاہرکروں تو مجھے اپنے آپ سے جدا کردیا۔
وہ اپنے حسن کی مستی سے ہیں مجبور پیدائی
یہ جدائی اللہ کے وفورِ وجود سے پیداہوئی ہے، اس جدائی کو مَیں ختم کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔''تقدیر وجود ہے جدائی''
Iqbal ny wajod ki haqeeqat k hr mrtabay pr insan ko apny zati imtiyaz aur Allah sy gheriyat k osol pr qa'im rakhtay hoye sabit kia ....
Insan ki tamam wajodi haqeeqat , jazba e firaq aur sha'or e firaq pr mabni hai ...is ki pori shanakht wajod ki aur sha'or ki firaq k ma'aday sy tayar hoi hai
firaq ka ye ma'ada Allah k wafor e wajod sy peda hua hai ...
os ny chaha k main khud ko zahir kro'n tu mujhy apny aap sy juda kr diya...
wo apny husn ki masti sy hain majbor e pedai
ye judai Allah k wafor e wajod sys peda hoi hai , is judai ko main khatam kron ga
 ....taqdeer wajod hai judai .... 

انسانی خودی کا وصف اساسی بنا ہے عشق کے نام سے۔
اس شعر میں یہ بتا یا گیا ہے کہ مَیں کیا ہوں، انسان کیا ہے۔ ؟
اقبال کی ساری دلچسپیوں کا محور یہ ہے کہ انسان کیا ہے۔
insani khudi ka wasf asasi bna hai ishq k nam sy ....
is sher mai ye btaya gaya hai k main kya hon ? insan kya hai ?
Iqbal ki sari dilchaspiyon ka mehwer ye hai k insan kya hai ?

 یعنی ''میرے وجود کی تپش حرکت زندگی مقصد تمام کے تمام اجزاء جو میری فطرت کو تخلیق کرتے ہیں
جن کی تکمیل کیلئے مجھے تخلیق کیا گیا
جن سے اس عالم میں گرمی و زندگی قائم ہے
تمام کے تمام ۔۔۔ 'جذبہ فراق ' کا نتیجہ ہیں
yani mere wajod ki tapish harkat zindagi maqsad tamam k tamam ajza jo meri fitrat ko takhleeq krtay hai , jin ki takmeel k liye mujhy takhleeq kia gaya hai jin sy is aalam mai grmi o aalam qa'im hai ....
tamama k tamam jazba e firaq ka nateeja hain ...
 
گر یہ فراق وصل کا ذائقہ پالے تو میری حیثیت مقصدیت کچھ باقی نہ رہے
میرا مقصود ہی میرا مصدر(جس سے ہم صادر ہوئے ۔۔۔رب کریم ) ہے۔
مصدر کی حیثیت سے مَیں اس کے فراق میں ہوں۔
مطلوب و مقصود کی حیثیت سے اس کے وصال کے یقین میں ہوں۔
لیکن اس یقین کی تڑپ ہی سرمایہء اصل ہے
gr ye firaq visl ka zaieqa palay tu meri hesiyat maqsadyat kuch baqi na rahy
mera maqsod hi mera masdr jis sy hum sadir hoye hain RAb e Kareem hai ..
masdar ki hesiyat sy main is k firaq mai hon matloob o maqsod ki hesiyat sy is k visal k yaqeen mai hon lekin is yaqeen ki tarap hi srmaya e asal hai ...

Ba Shukriya ...#AzKhuabeGiranKhaiz....

Wednesday, 7 January 2015

گلہ ہے شوق کو دل میں تنگیء جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
gila hai shoq ko dil mai bhi tangui e ja ka
goher mai mehav hua iztirab drya ka

تمام اعضآئے جسمانی کی طلب ، کسک ، اضطراب دل میں پوشیدہ ہوتی ہے ۔۔آنکھ نظارے کی تمنائی ہوتی ہے نام دل کا لگادیا جاتا ہے ۔۔
دل سب رازوں کا امین بن جاتا ہے ۔گویا خواہشات کا گڑھ بن جاتا ہے ۔۔
خواہشات دل میں دبانا ایک صورت اور دل کواہشات کو دبادے ایک بالکل الگ صورت ۔۔
جسمِ انسانی مثالاََ ایک سیپ کے ، دل ایک قطرہء ابر نیساں جو خواہشات کی سر نگوئی سے سربلندی پائے گا اور گہر کہلائے گا ۔۔
غآلب خواہشات کے اضطراب کی جا دل سمجھاتے ہیں ساتھ ہی طلبِ شوق کی اثر آفرینی سے دل کو بے کل بتاتے ہیں ۔۔
tamam aaza e jismani ki talab , kasak , iztirab dil mai posheeda hoti hai , aankh nazaray ki taman'na i hoti hai , nam dil ka laga diya jata haia ...
dil sb razo'n ka ameen bn jata hai , goya khuahishat ka garh bn jata hai ...
khuhishat dil mai dabana aik sorat aur dil khuahishat ko daba dy aik bilkul alag sorat
jism e insani misalan aik seep k , dil ai,k qatra e abr e neesa'n jo khuahishat ki sr nigoi sy sr bulandi paye ga aur goher kehlaye ga ....
Ghalib khuahishat k iztirab ki ja dil smjhatay hai sath hi talab e shoq ki aser aafreeni sy dil ko by kl btaty hain ....

بقول عبدالقادر المعانی بیدل ۔۔
ba qol Abdul Qadir Alma'ani Be dil

دل آسودۂ ما شور امکان در نفس دارد
گہر دزدیدہ است اینجاعنانِ ضبطِ دریا را
dil aasoda e ma shor e imkan dr nafas da rd
goher dzdeeda ast einja anan e zabt e drya ra

(ہمارا آسودہ دل ہر سانس میں امکان کا شور رکھتا ہے (گویا) موتی نے ضبط دریا کی باگ چرالی ہے یعنی سب کچھ عارضی ہے‘ وقتی ہے‘ سانس سے زندگی ہے اور سانس گویا شور امکان ہے کہ سانس چلتا رہے گا تو زندگی قائم رہے گی)
humara aasoda dil hr sans mai imkan ka shor rakhta hai , goya moti ny zabt drya ki bag chura li hai yani sb kuch aarzi hai , wqti hai , sans sy zindagi hai aur sans goya shor e imkan hai k sans chalta rahy ga tu zindagi qayim rahy gi

امکان کا شور امید کی ڈور ہے ، جو چلتی سانسوں کے ساتھ ہے ،زندگی کے ساتھ ہے ۔۔۔
گویا بیدل دل کی امنگوں ، ترنگوں کو نظر انداز کرتے ہیں ، لیکن زندگی امید کو نظر میں رکھتی ہے اور نظر حقیقیت پہ نظر رکھتی ہے کہ یہ تمام خواب دیوانے ، خواہش فسانے مختصر ، محدود مربوط ہیں محض زندگی کے ساتھ ۔۔۔
imkan ka shor , umeed ki door hai , jo chalti sanso'n k sath hai zindagi k sath hai
goya Be Dil dil ki umango'n , tarango'n ko nazer andaz krty hai , lekin zindagi umeed ko nazer mai rakhti hai aur nazer haqeeqat py nazer rakhti hai k tamam khuab deewanay , khuahish ffasanay mukhtasir , mehdood , marboot mehaz zindagi k sath .

بقول حضرتِ اقبال
ba qol Hazrat e Iqbal

ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺻﺪﻑ، ﻗﻄﺮﮦ ﻧﯿﺴﺎﮞ ﮨﮯ ﺧُﻮﺩﯼ
ﻭﮦ ﺻﺪﻑ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻗﻄﺮﮮ ﮐﻮ ﮔُﮩﺮ ﮐﺮ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ
zindagani hai sadaf , qatra e neesa'n hai khuhdi
wo sadaf kya jo qatray ko goher kr na saky

اس زندگی کا مقصد ذات کے نہاں رنگوں کو اجالنا ، انمول ثابت کرنا ہے ، خودی ذات کا وہ دائرہ جہاں سے ذاتِ واحد کی ضوفشانی ، تابانی منور ہوتی ہے ۔۔۔۔
is zindagani ka maqsad zat k niha'n rango'n ko ujalna , anmol sabit krna hai ..
khudi zat ka wo daira jahan sy zat e Wahid ki zoufishani , tabani munawer hoti hai ... 

Monday, 5 January 2015

میری تعمیر میں مضںمر ہے ایک صورت خرابی کی
ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

meri tameer mai muzmir hai aik sorat kharabi ki
heyola barq kharman ka hai kho garm dehqa'n ka

وہ دہقان جس کی سر گرمی خود اس کے خرمن کو جلا ڈالے ۔۔۔
یعنی جسمِ انسانی میں طبعی گرمائش ہی باعثِ زندگی ہے اور یہی گرمائش ایک حد پہ جاکر سرد پڑجائے برق بن کر گر جائے تو یہی باعثِ فنا بھی ہوئی ۔۔۔۔
ہستی ہماری ،اپنی فنا پر دلیل ہے ۔۔۔۔۔۔میری تخلیق ہوئی ہے تو فنا بھی لازمی ہوگی ایک محدود مدت کی میعاد مقرر ہے ۔

میرا وجود میری فنا کی دلیل ہے کہ اس میں قدرت نے فنا ہونے کی قابلیت پوشیدہ رکھی ہے ۔۔

wo dehqan jis ki sr grmi khud is k kharman ko jala dalay ....yani jism e insani mai tabai garmaish hi ba'is e zindagi hai aur yehi grmaish aik hd py ja kr sard pr jaye , barq bn kr gir jaye tu yehi ba'is e fana bhi hoi ....
hasti , humari apni fana pr daleel hai meri takhleeq hoi hai tu fana bhi lazmi hogi , aik mehdood mud'dat ki miyad muqar'r hai ...
mera wajood meri fana ki daleel hai k is mai qudrat ny fana honay ki qabliyat posheeda rakhi hai ...



Mirza Ghalib ....


aashna ,Ghalib , nhi hain dard e dil k aashna
wrna kis ko mere afsanay ki tab e istima'a


istima'a = sun'na ...

Moulana Abdul Rehman Jami R.A....

br biyaz e rukham muhar'rr e ashk
qis'sa e dard e intizar nosht

(mere chehray ki kitab pr ashko'n k muhar'rr ny intizar k dard ka qis'sa likh diya)

 مرزا غالب ۔۔۔۔۔

آشنا ، غآلب ، نہیں ہیں دردِ دل کے آشنا
ورنہ کس کو میرے افسانے کی تابِ استماع



مولانا عبدالرحمٰن جامی رح

بر بیاضِ رُخم مُحرّرِ اشک
قصّۂ دردِ انتظار نوست

میرے چہرے کی کتاب پر اشکوں کے محرر نے انتظار کے درد کا قصہ لکھ دیا۔

Sunday, 4 January 2015

دام ہر موج میں ہے حلقہء صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک



dam hr mouj mai hai halqa e sd kam e nehang
dekhain kya guzray hai qatray py guher honay tk

لفظ لفظ مفہوم تو یہی ہوا کہ ایک قطرہء بے حقیقت حیثیت پانے تک کی مدت میں کن کن مراحل سے گزرتا ہے ۔۔۔۔قطرے کو ہر ہر موج مانندِ اژدھا نگلنے کی تاک میں رہتی ہے ۔۔۔

lafz lafz mafhoom tu ye hi hua k aik qatra e by haqeeqat hesiyat panay tk ki mud'dat mai kin kin marahil sy guzerta hai ....qatray ko hr hr mouj manind e azdaha nigalnay ki tak mai rehti hai ...

بقول صوفی سرمد شہید ۔۔۔
ba qol Sofi Sarmad Shaheed...

در بحر وجودش بنگر طوفان است
آخر چو حبابِ یک نفس مہمان است
dr beher wajoodish banger tofan ast
aakhir cho habab e yak nafas mehman ast

(انسان کے وجود کے سمندر میں موجزن طوفانوں کو دیکھ اور یہ بھی دیکھ کہ آخر وہ بلبلے کی طرح فقط ایک لمحہ کا مہمان ہے )
ansan k wajood k samnder k tofano'n ko dekh aur ye bhi dekh k aakhir wo bulbulay ki trah faqat aik lamhay ka mehmam hai ...

پردے پردے میں نہاں مفہوم اس قدر ہے کہ نفس کہہ لیں یا دنیا۔۔۔۔
طرح طرح کی چال چلتی ہے ، جال بچھاتی ہے ، طرح طرح کے دھندے کراتی ہے ، پھندے لگاتی ہے ۔۔۔۔
انسان کا کندن بننا ہزارہا مراحل کارِ دشوار سے ممکن ہے ، نفس ِ امارہ کی تربیت ازحد کٹھن ۔۔۔
parday parday mai niha'n mafhoom is qader hai k nafs keh lain ya dunya ...
tarah tyrah ki chal chalti hai , jal bichati hai ....trah trah k dhanday krati hai , phanday lagati hai ...
insan ka kundan bn'na hazar ha marahil kar e dushwar sy mumkin hai , nafs e am'mara ki tarbiyat az hd kathan ...

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
 آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا 
bs k dushwar hai hr kam ka aasa'n hona
aadmi ko bhi mayasar nhi insa'n hona

نسلا انسان کا اصلا انسان بننا اعلی اوصاف سے متصف ہونے کے لیے جہدِ مسلسل شرط ہے ۔۔۔۔
حضرتِ اقبال بھی کمالِ انسانیت تک رسائی کا یہی کلیہ لاتے ہیں ۔۔۔۔
naslan insan ka aslan insan bn'na aala ousaf sy mutasif hony k liye juhd e musalsl shart hai
Hazrat e Iqbal bhi kamal e insaniyat tk rasai ka yehi kulya latay hain ...


عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
amal sy zindagi bnti hai jan'nat bhi jahan'num bhi
ye khaki apni fitrat mai na nori hai na nari hai

Saturday, 3 January 2015

تا کجا افسوس گرمی ہائے صحبت اے خیال
دل بہ سوزِ آتشِ داغِ تمنا جل گیا

ta kuja afsos garmi haye suhbat ay khayal
dil ba soz e aatish e dagh e tamn'na jl gaya

تا ، تک ۔۔۔کجا ، کہاں ۔۔۔
شاعر خیال کی وسعتوں کا مسافر ہوتا ہے ، یہ سب خیال ہی کی تو کارستانیاں ہیں کہ تشنہ تمنائیں داغ ، داغ آتشبار ۔۔۔
یہاں خیال سے مخاطبت ہے کہ تو کہاں تک اس گرمیء صحبت کا افسوس کرے گا کہ دل تو جل چکا ۔۔۔

ta , tk ...kuja , kahan....
shayer khayal ki wusato'n ka musafir hota hai , ye sb khayal ki hi tu karastaniya'n hain k tashna tamn'na'en dagh , dagh aatish bar ....
yahan khayal sy mukhatibat hai k tu kahan tk is grmi e suhbat ka afsos kare ga k dil tu jl chuka ....
ay waye ghaflat nigah shoq wrna ya'n
hr para sang lakht dil koh e tor tha

اے وائے غفلت نگہ شوق ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لخت دل کوہِ طور تھا

dil koh e tor hai jis pr tajl'li parnay ki dair hai aur tajl'li shoq ki adam dastiyabi sy kyn kr mumkin hai .... wrna dunya ka hr hr zr'ra irfan baksna janta hai sirf ghor krnay ki dair hai ...
دل کوہِ طور ہے جس پہ تجلی پڑنے کی دیر ہے اور تجلی شوق کی عدم دستیابی سے کیونکر ممکن ہے ۔۔۔ورنہ دنیا کا ہر ہر زرہ عرفان بخشنا جانتا ہے صرف غؤر کرنے کی دیر ہے ۔۔۔۔

Friday, 2 January 2015


آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

aarayish e jamal sy farigh nhi hunooz
paish e nazer hai ayena da'im naqab mai

بساطِ زیست  پہ جمی ہر ہر بستی ، ہر ہر ہستی ادھیڑ بُنت میں ہمہ وقت مشغول و مصروف ہے ۔۔۔کائنات بہ معنی زمین و زماں ، مکین و مکاں متحرک ہیں ۔۔۔
جسمِ انسانی ہی میں غور کیا جائے مسلسل توڑ پھوڑ جاری ہے ۔۔۔۔
روزانہ سیکنڈوں کے حساب سے خلیات کی پیدائش و اموات جاری ہیں ۔۔۔

کائنات کا زرہ زرہ محوِ حرکت ہے ۔۔۔۔کائنات میں جمود نہیں ۔۔۔

basat e zeest pr jami hr hr basti , hasti udhair , bunat mai huma waqt mashghol o masroof hai ...kayinat ba ma'ani zameen o zaman , makeen o maka'n mutaharkat hain ...
jism e insani hi mai ghor kia jaye musalsl tor phor jari hai rozana seconds k hisab sy khalyat ki paidaish o amwat jari hain ....
kayinat ka zr'ra zr'ra mehw e harkat hai ...kayinat mai jamood nhi ....
 
نہ ہو بہرزہ بياباں نورد و ہم وجود
ہنوز تيرے تصور ميں ہے نشيب و فراز

na ho ba harza bayaba'n naverd wehum wajod
hanoz tere tasavur mai hai nashaib o faraz

وجود کی تشکیک میں پڑنا ، بیاباں نوردی کے مترادف ہے کہ صرف زمیں ناپی جاتی ، حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔وجود کو موجود کے وہم سے دور رکھا جائے کیونکہ تصور تعقل کی حدود پھلانگنا جانتا ہے جس سے راہ سے بھٹک جانے کا احتمال کافی حد تک ہے ۔۔۔

موجود کا وجود ۔۔۔۔بوجودِ واحد ہی حق ہے ۔۔وجودِ واحد کی موجودگی ہر ہر موجود سے عیاں ہے ۔۔۔۔

wajood ki tashkeek mai parna , bayaba'n naverdi k mutaradif hai k sirf zameen napi jati hai , hasil wasol kuch nhi hota ....
wajood ko moujod k wehum sy dor rakha jaye kyn k tasavur ta'aqul ki hudood phalangna janta hai jis sy rah sy bhatak jany ka ehtimal kafi hd tk hai ...
moujod ka wajood , ba wajod e wahid hi huq hai , wajod  e wahid ki moujodgi hr hr moujod sy aya'n hai ....

Thursday, 1 January 2015

جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

jalwa az bs k taqaza e nigah krta hai
joher e ayena bhi chahay hai muzga'n hona

اس قدر تاباں ، درخشاں حسن جس کے واسطے ہر وجود آنکھ بننا چاہے ،آئینہ ذات بننا چاہے۔۔
ایسا حسن جس کی مدح قرض بن جائے ، فرض بن جائے ۔۔۔

is qader taba'n , darakhsha'n husn jis k wastay hr wajod aankh bn'na chahay , ayena zat bn'na chahay ....
aisa husn jis ki madah qarz bn jaye , farz bn jaye ...
Mirza Ghalib.......

عشرتِ پارۂ دل ،زخمِ تمنا کھانا
لذتِ ریشِ جگر ،غرقِ نمکداں ہونا

ishrat e para e dil zakham e tamn'na khana
laz'zat e raish e jiger ,gharq e namak da'n hona

''معشوق کی جفا کو عاشق عطا سمجھتا ہے ۔''

''Mashooq ki jafa ko aashiq ata samjhta hai ''

ریش ، ریشہ روم بال ۔۔۔۔تمناؤں کی ناکامی جھیلنا ہی دلِ لخت لخت کے لیے سامانِ عیش ہے ،۔۔۔جگر کا غرقِ نمکداں با معنی تپش آمیز درد سے سلگنا ۔۔۔

raish , raisha  , rom , bal ....
tamn'non ki nakami jhailna hi dil e lakht lakht k liye saman e aish hai ....jiger ka gharq e namak da'n ba ma'ani tapish aamaiz dard sulagna ....