Sunday, 29 March 2015

مِرزا اسد اللہ خان غالب کے یومِ پیدائش کے موقع پہ اُن کی ایک غزل۔۔۔۔
بہ وادی کہ درآں خضر را عصا خفت ست
بہ سینہ می سپرم رہ اگرچہ پا خفت ست

جس وادی میں خضر کا عصا سو گیا ہے ۔ وہاں میں سینے کے بل چل کر راستہ طے کرتا ہوں اگرچہ میرے پاؤں سو گئے ہیں۔
بدیں نیاز کہ با تست ، ناز می رسدم
گدا بہ سایہ دیوار پادشا خفت ست
یہ جو مجھے تجھ سے نیاز مندی ہے مجھے اس پر فخر ہے۔ ایک گدا بادشاہ کی دیوار کے سائے میں سویا ہوا ہے۔
بہ صبح حشر چنین خستہ ، روسیہ خیزد
کہ در شکایت دردو غم دوا خفت ست
ایسا شخص جو عمر بھر اپنی خستہ حالی اور دکھ درد کے شکوے کرنےاور دوا کے غم میں کھویا رہا اور پھر سو گیا (مر گیا)وہ روزِمحشر روسیاہ اٹھے گا۔
خروش حلقہ رنداں ز نازنیں پسرے ست
کہ سر بہ زانوئے زاہد بہ بوریا خفت ست
رندوں کے حلقے میں اس لیے شور مچا ہوا ہے کہ ایک خوبصورت لڑکا زاہد کے زانو پہ سر رکھے بوریے پر سو رہا ہے۔
ہوا مخالف و شب تار و بحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشتی و ناخدا خفت ست
ہوا مخالف ، رات اندھیری اور سمندر میں طوفان اٹھ رہا ہے ۔ کشتی کا لنگر ٹوٹ چکا ہے اور ملاح سو رہا ہے۔
غمت بہ شہر شبخوں زناں بہ بنگہ خلق
عسس بہ خانہ و شہ در حرم سرا خفت ست
تیرا غم راتوں کو لوگوں کے گھر ڈاکے ڈال رہا ہے ۔ لیکن کوتوال اپنے گھر اور بادشاہ اپنے حرم سرا میں سو رہا ہے۔
دلم بہ سبحہ و سجادہ و ردا لرزد
کہ دزد مرحلہ بیدار و پارسا خفت ست
تسبیح ، مصلیٰ اور چادر کی حالت دیکھ کر میرا دل لرز رہا ہے ۔ کہ چور تو جاگ رہا ہے اور عبادت گزار سو رہا ہے۔
درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست
زبختِ من خبر آریدتا کجا خفت ست
راتوں کا طویل ہونا اور میرا ساری رات جاگنا کوئی خاص بات نہیں۔ ذرا یہ معلوم کرو کہ میرا نصیب کہاں سو رہا ہے ۔
ببیں ز دور ومجو قرب شہ کہ منظر را
دریچہ باز و بہ دروازہ اژدہا خفت ست
تو بادشاہ کو بس دور سے ہی دیکھ لے اور قربت کا خیال چھوڑ دے ۔ کیونکہ منظر کا دریچہ تو کھلا ہے ، لیکن دروازے پر اژدہا سو رہا ہے۔
بہ راہ خفتن من ہر کہ بنگرد داند
کہ میر قافلہ در کارواں سرا خفت ست
جو کوئی بھی مجھے راستے میں سویا ہوا دیکھے گا وہ جان لے گا کہ اس قافلے کا سردار کاروان سرا میں سو رہا ہے۔
دگر زایمنی راہ و قرب کعبہ چہ حظ
مرا کہ ناقہ ز رفتار ماند و پا خفت ست
اگر راستہ محفوظ ہے اور کعبہ بھی قریب ہے ۔ تو مجھےکیا خوشی ہو سکتی ہے جبکہ میری اونٹنی چلنے سے رہ گئی ہے اور میرے پاؤں بھی سو گئے ہیں۔
بہ خواب چوں خودم آسودہ دل مداں غالب
کہ خستہ غرقہ بہ خوں خفتہ است تا خفت ست
غالب! تو مجھے سویا ہوا دیکھ کر اپنی طرح آسودہ دل نہ سمجھ۔ کیونکہ خستہ دل آدمی تو سویا ہوا بھی یوں لگتا ہے گویا خون میں ڈوبا سو رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment