خود حسن اگر غماز نہ ہو تو عشق کا چرچا کون کرے
ہر چند کلیجہ پھنکتا ہے ساقی سے تقاضا کون کرے
اے حد سے گزرتی تشنہ لبی یہ ننگ گوارا کون کرے
یک جلوہ و صد حیراں نظری شوریدہ سری پھر بے خبری
اس عشق تماشا دشمن کو مانوس تماشا کون کرے
جلتی ہے پلک تپتی ہے نظر اک آگ لگی ہے سینے میں
مشتاق سے اپنے تیرے سوا ایسے میں بھی پروا کون کرے
اب شوق بھڑکتا شعلہ ہے دیتی ہے جسے ہر سانس ہوا
بیتابی سی بیتابی ہے اظہار تمنا کون کرے
رنگین پروں کے کچھ طائر یا خواب یہاں پرواز میں ہیں
تفسیر میں الجھا کون رہے تعبیر کا دعوی کون کرے
جو کچھ بھی گزرتی ہے گزرے انجام وہ ہو جو ہونا ہے
جو آپ خریدا جائے اثر اس غم کا مداوا کون کرے
جب حآل یہ ہے بے مہری کا ہم ڈوبتے ہیں وہ ہنستے ہیں
ساحل کی تمنا ایک طرف ساحل کا نظارا کون کرے
اثر لکھنوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسا تفرقہ ڈآلا نگاہ فتنہ ساماں نے
تمنا سے تمنا بد گماں معلوم ہوتی ہے
فنا کہتے ہیں جس کو وہ نگاہِ ذوق پیما میں
صدائے بازگشت کن فکاں معلوم ہوتی ہے
لگا لایا ہے تو مجھ کو کہاں اے عشق شوریدہ
کہ منزل بھی غبارِ کارواں معلوم ہوتی ہے
جل گیا خاک ہوا ،خآک بھی برباد ہوئی
جب کہیں نام چلا عشق میں پروانے کا
16 9
صاحبِ دہ بادشاہِ جِسمہاست
صاحبِ دِل شاہِ دِلہائے شُماست
شہر کا حاکِم جِسموں کا بادشاہ ہے۔ صاحبِ دِل تمہارے دِلوں کا بادشاہ ہے۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
اولیاء را ہست قُدرت از اِلٰہ
تِیرِ جَستہ باز آرندش ز راہ
اللہﷻ کی جانِب سے اولیاء کو قُدرت حاصل ہے (کہ وہ) چھُوٹے ہوئے تِیر کو راستہ سے واپس لے آئیں۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
عِلم و حِکمت زاید از لُقمہ حلال
عِشق و رِقّت زاید از لُقمہ حلال
چوں ز لُقمہ تُو حسد بینی دوام
جِہل و غفلت زاید آنرا داں حرام
عِلم و حِکمت حلال لُقمے سے پیدا ہوتے ہیں۔ عِشق اور رِقّت (دِل کی نرمی) حلال لُقمے سے پیدا ہوتے ہیں۔ جِس لُقمے سے تُم میں حسد، فریب، جہالت اور غفلت پیدا ہوتی دیکھو تو اُسکو حرام سمجھو۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
رحمت دا مینہ پا خُدایا باغ سُکا کر ہریا
بُوٹا آس اُمید میری دا کر دے میوے بھریا
اے خُداوند کریم اپنی بارانِ رحمت سے میری زندگی کے سوکھے ہوئے باغ کو سرسبز و شاداب بنا دے، میری خزاں زدہ زندگانی کے باغ کو بہار سے ہمکنار فرما اور میری آس اُمید کے بُوٹے کو ہرا بھرا اور سر سبز و شاداب بنا دے، میری اُمید پوری فرما۔
میاں محمّد بخشؒ -سیف الملوک
ترجمہ: میاں ظفر مقبول
چِیست دُنیا اَز خُدا غافِل بُدَن
نےقماش ونقرہ وفرزندان وزَن
دُنیا کیا ہے ؟ اللہ سے غافِل ہوجانا۔ نہ کہ ساز و سامان اور دولت اور اولاد اور بیوی۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
چُوں خُدا خواہد کہ ماں یاری کُنَد
مَیلِ ما را جانبِ زاری کُنَد
جب اللہ تعالٰی ہماری مدد فرمانا چاہتا ہے تو ہمیں گِریہ زاری (عِجزوانکسار ) کیطرف مائل کر دیتا ہے۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
کارِ پاکاں را قیاس اَز خود مگیر
گرچہ باشد در نَوِشْتَن شَیر شِیر
پاک لوگوں کے کام کو اپنے اوپر قیاس نہ کر، اگرچہ لکھنے میں شیر(درندہ) اور شِیر(دودھ) یکساں ہوتا ہے۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
فیضِ نظر کے لیے ضبطِ سُخن چاہیے
حرفِ پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور
علامہ اقبالؒ– ضربِ کلیم
ادب گاهیست زیر آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کرده می آید جنید و با یزید این جا
اس عشق تماشا دشمن کو مانوس تماشا کون کرے
جلتی ہے پلک تپتی ہے نظر اک آگ لگی ہے سینے میں
مشتاق سے اپنے تیرے سوا ایسے میں بھی پروا کون کرے
اب شوق بھڑکتا شعلہ ہے دیتی ہے جسے ہر سانس ہوا
بیتابی سی بیتابی ہے اظہار تمنا کون کرے
رنگین پروں کے کچھ طائر یا خواب یہاں پرواز میں ہیں
تفسیر میں الجھا کون رہے تعبیر کا دعوی کون کرے
جو کچھ بھی گزرتی ہے گزرے انجام وہ ہو جو ہونا ہے
جو آپ خریدا جائے اثر اس غم کا مداوا کون کرے
جب حآل یہ ہے بے مہری کا ہم ڈوبتے ہیں وہ ہنستے ہیں
ساحل کی تمنا ایک طرف ساحل کا نظارا کون کرے
اثر لکھنوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسا تفرقہ ڈآلا نگاہ فتنہ ساماں نے
تمنا سے تمنا بد گماں معلوم ہوتی ہے
فنا کہتے ہیں جس کو وہ نگاہِ ذوق پیما میں
صدائے بازگشت کن فکاں معلوم ہوتی ہے
لگا لایا ہے تو مجھ کو کہاں اے عشق شوریدہ
کہ منزل بھی غبارِ کارواں معلوم ہوتی ہے
جل گیا خاک ہوا ،خآک بھی برباد ہوئی
جب کہیں نام چلا عشق میں پروانے کا
16 9
زاں پیشتر کہ عقل شود رہنموں مرا
عشقِ تو رہ نمود بکوئے جنوں مرا
ہلالی چغتائی
اِس سے پیشتر کہ عقل میرا راہنما بنتی، تیرے عشق نے مجھے کوئے جنوں کی راہ دکھا دی۔
عشقِ تو رہ نمود بکوئے جنوں مرا
ہلالی چغتائی
اِس سے پیشتر کہ عقل میرا راہنما بنتی، تیرے عشق نے مجھے کوئے جنوں کی راہ دکھا دی۔
فطرت ہے ایک صحیفہ تفسیر آدمی ہے
تفسیر کا خلاصہ ذوقِ خود آگہی ہے
اثر لکھنوی
تفسیر کا خلاصہ ذوقِ خود آگہی ہے
اثر لکھنوی
صاحبِ دہ بادشاہِ جِسمہاست
صاحبِ دِل شاہِ دِلہائے شُماست
شہر کا حاکِم جِسموں کا بادشاہ ہے۔ صاحبِ دِل تمہارے دِلوں کا بادشاہ ہے۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
اولیاء را ہست قُدرت از اِلٰہ
تِیرِ جَستہ باز آرندش ز راہ
اللہﷻ کی جانِب سے اولیاء کو قُدرت حاصل ہے (کہ وہ) چھُوٹے ہوئے تِیر کو راستہ سے واپس لے آئیں۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
عِلم و حِکمت زاید از لُقمہ حلال
عِشق و رِقّت زاید از لُقمہ حلال
چوں ز لُقمہ تُو حسد بینی دوام
جِہل و غفلت زاید آنرا داں حرام
عِلم و حِکمت حلال لُقمے سے پیدا ہوتے ہیں۔ عِشق اور رِقّت (دِل کی نرمی) حلال لُقمے سے پیدا ہوتے ہیں۔ جِس لُقمے سے تُم میں حسد، فریب، جہالت اور غفلت پیدا ہوتی دیکھو تو اُسکو حرام سمجھو۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
رحمت دا مینہ پا خُدایا باغ سُکا کر ہریا
بُوٹا آس اُمید میری دا کر دے میوے بھریا
اے خُداوند کریم اپنی بارانِ رحمت سے میری زندگی کے سوکھے ہوئے باغ کو سرسبز و شاداب بنا دے، میری خزاں زدہ زندگانی کے باغ کو بہار سے ہمکنار فرما اور میری آس اُمید کے بُوٹے کو ہرا بھرا اور سر سبز و شاداب بنا دے، میری اُمید پوری فرما۔
میاں محمّد بخشؒ -سیف الملوک
ترجمہ: میاں ظفر مقبول
چِیست دُنیا اَز خُدا غافِل بُدَن
نےقماش ونقرہ وفرزندان وزَن
دُنیا کیا ہے ؟ اللہ سے غافِل ہوجانا۔ نہ کہ ساز و سامان اور دولت اور اولاد اور بیوی۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
چُوں خُدا خواہد کہ ماں یاری کُنَد
مَیلِ ما را جانبِ زاری کُنَد
جب اللہ تعالٰی ہماری مدد فرمانا چاہتا ہے تو ہمیں گِریہ زاری (عِجزوانکسار ) کیطرف مائل کر دیتا ہے۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
کارِ پاکاں را قیاس اَز خود مگیر
گرچہ باشد در نَوِشْتَن شَیر شِیر
پاک لوگوں کے کام کو اپنے اوپر قیاس نہ کر، اگرچہ لکھنے میں شیر(درندہ) اور شِیر(دودھ) یکساں ہوتا ہے۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
فیضِ نظر کے لیے ضبطِ سُخن چاہیے
حرفِ پریشاں نہ کہہ اہلِ نظر کے حضور
ادب گاهیست زیر آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کرده می آید جنید و با یزید این جا
15 3
No comments:
Post a Comment