Friday, 1 May 2015

Mirza Ghalib............
===============
juz nam nhi sorat e aalam mujhy manzor
juz wehum nhi hasti e ashya mere aagy
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں صورت اشیاء میرے آگے
Mirza Bedil Dehelvi .....
=================
sorat e wehmi ba hasti muthim dariyam ma
cho'n habab ayena br taq e adam dariyam ma
صورتِ وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاقِ عدم داریم ما
(hasti pr hum ny wehum ka itham lga dia ,taq e adam pr habab ka ayena lga dia )
(ہستی پر ہم نے وہم کا اتّہام لگا دیا طاقِ عدم پر حباب کا آئینہ لگا دیا )
Allama Muhammad Iqbal ....
====================
nuqta e parkar e haq ,mard e khuda ka yaqeen
aur ye aalam tamam ,wehum o tilsam o mijaz
نقطہ پرکار حق ، مرد خدا کا يقيں
اور يہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
Zat e Bari Ta'ala moujod, hum wajod , moujod sy wajod ka qayam hai ....
jo haqeeqat mai moujod wo wajod sy by niyaz , jo wajod mai moujod os ka koi wajod nhi ....
ذاتِ باری تعالی موجود ، ہم وجود ۔۔۔۔موجود سے وجود کا قیام ہے ، جو حقیقت میں موجود وہ وجود سے بے نیاز ، جو وجود میں موجود اس کا کوئی وجود نہیں ۔۔۔
kisi ny kya khob wazahat di hai k : hr moujod aik wajod rakhta hai aur ye wajod hr aankh k dekhnay k zawiye py apna aks mujas'sim krta hai , wajod hai tu moujod lazim hai , jo wajod na ho tu moujod hona amer e mahal .....
کسی نے کیا خوب وضاحت دی ہے کہ :ہر موجود اک وجود رکھتا ہے اور یہ وجود ہر آنکھ کے دیکھنے کے زاویہ پر اپنا عکس مجسم کرتا ہے ۔
وجود ہے تو موجود لازم ہے ۔۔۔۔۔ جو وجود نہ ہو تو موجود ہونا امرِ محال۔۔۔۔۔۔۔
فلسفہء وحدت پہ ازل سے لکھا جارہا ہے ، سوچا جارہا ہے ، پرکھا جارہا ہے ،یہ سلسلہ ابد تک جاری و ساری رہنا ہے ،
تقاضائے فطرت ہے کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی کیونکر ؟
یہ سوالیہ نشان جو جستجو کو مہمیز کرتا ہے ۔۔جستجو جو گفتگو سے نہیں مشاہدے سے منزل پاتی ہے ۔۔۔
ہر چند ہر اک شے میں تو ہے
پر تجھ سی کوئی شے نہیں ہے

بقول اصغر گونڈوی :
میں کامیاب دید بھی حیران دید بھی
جلووں کے اژدھام نے حیراں بنادیا
اس کائنات کا ہر ہر زرہ اللہ پاک کی ذات کا شاہد ہے ، جو ہے پردوں میں پنہاں، چشم بینا دیکھ لیتی ہے، جیسے غآلب فرماتے ہیں کہ :
جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ گر کیجیے خیال
دیدہء و دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے
حیرت کی فراوانی ہے جو نفس نفس کو یکتائی پہ شاہد بناتی ہے ۔۔۔
سب کو مقبول ہے دعوی تیری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
وجودِ باری تعالی ایک کھلی حقیقت ، اللہ پاک کا وجود ہر ہر موجود سے آشکارا ہے ، اللہ کی صفات سے ذات کا تعین کیا جاتا ہے ۔۔
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
کائنات کی ذات


ZAHAY KARISHMA K YO'N DY RAKHA HAI HUM KO FARAIB....
دہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
ہاں اہلِ طلب! کون سنے طعنۂ نا یافت. دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے
وہی اک چیز جو یاں نفس واں نکہتِ گل ہے ، چمن کا جلوہ باعث ہے میری رنگیں نوائی کا
حقیقت اک ہے ہر شے کی خآکی ہو کہ نوری ہو ، لہو خورشید کا ٹپکے اگر زرے کا دل چیریں
اقبال
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور ، جز وہم نہیں صورت اشیاء میرے آگے
صورتِ وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاقِ عدم داریم ما
(ہستی پر ہم نے وہم کا اتّہام لگا دیا طاقِ عدم پر حباب کا آئینہ لگا دیا )بیدل
وہ صورت جسے دیکھو تو ہے مگر غور کرو تو کچھ نہیں بظآہر موجود بباطن معدوم
نقطہ پرکار حق ، مرد خدا کا يقيں
اور يہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
اقبال
نہیں کچھ سبحہ و زنار کے پھندے میں ، وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے
اقبال
فَرقے نہ نہد عاشق در کعبہ و بتخانہ
ایں جلوتِ جانانہ، آں خلوتِ جانانہ
عاشق کعبہ اور بت خانہ میں کوئی فرق روا نہیں رکھتا، اس کیلیئے یہ (بت خانہ) اگر محبوب کی جلوت ہے تو وہ (کعبہ) محبوب کی خلوت ہے۔
کعبے میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں ، بھولا ہوں حقِ صحبتِ اہلِ کنشت کو
وفاداری بہ شرطِ استواری اصل ایماں ہے ،مرے بتخانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
رہ رو چلے ہیں راہ کو ہموار دیکھ کر
وحشت میں کعبے کو جو گیا کوئے یار سے ،
عالم همه یک نسخهء آثار شهود است

غفلت چه فسون خواند که اَسرار گرفتیم


تمام عالم یک نسخه از آثار خداوند است اما چشم حق بین میخواهد تا این همه شهود را ببیند و به آن پی ببرد. ما بجای اینکه راه به این آثار خداوندی پیدا بکنیم، در اثر عفلت دنبال دلیل و برهان گشتیم و در جستجوی اسرار برآمديم .

و یا :

جز وحدت صرف نیست در غیب و شهود

الا الفی دارد و باقی همه لا

غیب و شهود یک وحدت است، باقی همه چیز نیست است.
بقول غالب ۔۔۔۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
Gahee dayr tazeem-o gah k'abah joo
Junoon-haast majboor-e taqdeer raa !!
(Bedil)
Sometimes I rush to the temple
sometimes seek the k'abah.
Insanity grips those
compelled by fate !!
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں

مرزاغالبؔ نے مسئلہ وحدت الوجود کواس شعر میں مزید واضح انداز میں بیان کیا ہے۔۲۰؂
اسے کون دیکھ سکتا کہ ، یگانہ ہے وہ یکتا
جودوئی کی بو بھی ہوتی ، تو کہیں دو چار ہوتا
کیونکہ اﷲ ایک ہے اور اس کی کوئی مثل نہیں لہٰذا اسے کون دیکھ سکتا ہے۔ اگر اس کے باوجود کسی دوسرے کا وجودہوتا تو میری کہیں نہ کہیں تو اس سے ملاقات ہو ہی جاتی ۔وہ کبھی تو نظرآ ہی جاتا ۔یا تو وہ دوسری ہستی ہم انسانوں سے کہیں ملتی یا پھر اﷲ ہی اس ہستی سے کہیں ملتا۔لیکن بات پھر وہیں ختم ہوتی ہے ’جو نہ بادہ خوار ہوتا‘۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے تحریر کیا ہے کہ is a romance of eithism pantheism یعنی وحدت الوجود دہریت کا رومانس ہے اور یہ بات درست ہی لگتی ہے ا۲؂۔ غالبؔ کی بے دینی، اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا، بادہ خواری کے خود تذکرے کرنا، جوئے اور شراب کی وجہ سے پس دیوار زنداں رہنا ثابت کرتا ہے کہ وحدت الوجود بھی ایک لبادہ تھا ۔لیکن غالبؔ کی وحدت الوجود لوگ اس لیے ہضم کر گئے کہ شاعری میں ہم اکثر ایسی باتیں سن لیتے ہیں جس پر نثرمیں گردن اتارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ابن عربی اور مولانا رومی ہیں۔ ابن عربی کو زندیق تک کہا گیا لیکن رومی بہت کچھ کہہ کر بھی مولوی ہی کہلائے اور اب بھی مولانا ہی ہیں ۔تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرزا غالبؔ شریعت کا دشمن اور طریقت کادوست تھا۔ انسانیت کی محبت یقینا اس کا جزو ایمان تھی لیکن نظریہ وحدت الوجود منظم انداز فکر سے نہیں ملتا۔ غالب ؔکے ہاں خدا کا ایک ارفع اور اعلیٰ اور برتر تصوربھی ملتا ہے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی اس کی شاعری کا جزو ہے۔ ۲۲ ؂، ۲۳؂ ، ۲۴؂
سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا ، غالبؔ
اُمیدِ جلوہ ز دیر و حرم مدار اے دل
کہ حُسنِ دوست مقیّد بجلوہ گاہے نیست
سیّد نصیر الدین نصیر
اے دل دیر و حرم سے جلوے کی اُمید مت رکھ کیونکہ دوست کا حُسن کسی بھی جلوہ گاہ میں مقید نہیں ہے (بلکہ ہر جگہ ہے)۔

خدا سے کیا ستم و جورِ نا خدا کہیے

غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئنہ
طوطی کو، شش جہت سے، مقابل ہے آئنہ


آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
جلوہء خور سے فنا ہوتی ہے شبنم غالب
کھودیا سطوت اسمائے جلالی نے مجھے


 
 

لتے جنوں نے جامہء احرام کے لیے
آتش